پاکستان جہاں سیاسی، عدالتی اور معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے وہاں اُس کی اسٹرٹیجک اہمیت کی وجہ سے دُنیا کے بڑے کھلاڑی اس کی طرف متوجہ ہورہے ہیں
نصرت مرزا
پاکستان جہاں سیاسی، عدالتی اور معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے وہاں اُس کی اسٹرٹیجک اہمیت کی وجہ سے دُنیا کے بڑے کھلاڑی اس کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی بحران اور دہشت گردی کی یکدم تیزی آنے کی وجہ سے اُس کی اسٹرٹیجک محل وقوع جو اس کی طاقت کا محور مانا جاتا ہے وہ پاکستان کی کمزوری بن رہا ہے۔ لیکن ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ پاکستان میدانِ عمل میں ہے، وہ ایک کھلاڑی ہے اُس کی اہمیت ابھی تک برقرار ہے، اُس کے لوگوں میں عزم ہے اور کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے، ویسے بھی قومیں اپنی بقاء کی جنگ اپنے آپ کو طاقت ور بنانے کے لئے صدیوں تک لڑتی ہیں، ہم بنگلادیش کی مثال دے سکتے ہیں کہ وہاں انقلاب آیا اور وہاں کی عوام میں پاکستان کی حمایت اُن حلقوں کی طرف سے جو سدا کے پاکستانی تھے سزا بھی پاتے رہے، دکھ درد بھی سہتے رہے اور وہ اب پاکستان کی طرف اُمید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کو دیکھ لیں کہ اُن کی سابقہ وزیراعظم اندرا گاندھی کہتی تھیں کہ انہوں نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ زندہ ہوتی تو اُن کو پتہ چل جاتا کہ ابھی جنگ جاری ہے، نہ وہ دو قومی نظریہ کو بنگلادیش کے قیام کے وقت ختم کرسکیں اور نہ اب ختم ہوا ہے اور خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مسلمانوں کو نہ ہی کشمیر میں اور نہ ہی انڈیا میں دبا پائے ہیں بلکہ انہوں نے انڈیا کو مزید تقسیم کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اگرچہ مسلمانوں نے ہندوستان پر 800 سال سے زیادہ حکومت کی مگر ہندو بالآخر انگریز کی مدد سے ہندوستان کو اپنا بنا بیٹھے اور اُن کی مسلمانوں سے انتقام لینے کے جذبے کو قدرے راحت ملی مگر مسلمان کہاں غلام رہنے والے تھے، مسلمانوں نے دو قومی نظریہ پیش کرکے پاکستان جیسی عظیم سلطنت کے قیام کو ممکن بنایا۔ کشمکش ختم نہیں ہوئی، ہندو ہمیں زیر کرنے میں لگا ہوا ہے اور ہم اُن کو امن کے ساتھ رہنے کی تلقین اور رہنمائی کرتے رہتے ہیں کہ شیطان اور رحمان کے درمیان جنگ ہے جو جاری رہے گی۔ البتہ ہمیں ابھی بھی اپنی بقاء کے لئے ہرممکن کوشش اور جدوجہد جاری رکھنی پڑتی ہے، ہر وقت پُرعزم اور حالتِ تیاری میں رہنا پڑتا ہے، ذرا سی غفلت نقصان پہنچا سکتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت سیاسی بحران تو ہے ہی مگر بحرانوں کا جمعہ بازار بھی لگا ہوا ہے، اس دورانیہ میں پاکستان کئی اہم اجلاس بھی ہورہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس اکتوبر 2024ء کو اسلام آباد میں ہونے جارہا ہے۔ اس کی تیاریوں کے سلسلے میں جو اجلاس ہوا، اس میں روس کے نائب وزیراعظم الیکسی اوورچک پاکستان تشریف لائے۔ اس اجلاس سے پہلے امریکا کے نائب وزیرخارجہ جان بوس پاکستان وارد ہوگئے تھے اور اُن سے پہلے 2023ء میں چین کے نائب وزیراعظم اور چینی صدر کے خصوصی ایلچی لی فنگ، جو پولیٹ بیورو کے 25 ممبران سے ایک ہیں، تشریف لے آئے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی کھچڑی پک رہی ہے اور کیا کھچڑی پک رہی ہے وہ ابھی ہمیں نہیں معلوم اور اگر معلوم بھی ہوتا تو شاید ابھی سوچ سمجھ کر شائع کرتے۔
امریکا کے ایک بلاگر اور صحافی پہلے ایک ایسے اخبار “The Intercept” سے منسلک تھے انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان چین کو گوادر میں اڈہ بنانے کا معاہدہ کررہا ہے۔ یہ اخبار “The Intercept” اپنی ”آزاد صحافت“ کو برقرار رکھنے اور یہودیوں کے دباؤ سے ”آزاد“ ہونے کا دعوے دار ہے اور ایسی صورت میں جبکہ سارے امریکی اخبارات صیہونی دباؤ کا شکار ہیں تو وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنی صحافتی آزادی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، اس لئے مالی مشکلات کا شکار ہے اور وہ دباؤ سے آزاد ہونے کے لئے ”آزاد صحافت“ کے حامیوں سے مدد کے طلب گار ہیں کہ ان کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے اخبار کی آزاد پالیسی کو برقرار رکھیں۔ یہ صحافی گراہم صاحب خود بھی ایسی اپیلیں کرتے رہتے تھے، شاید وہ اب تنگ آگئے ہوں اور انہوں نے اپنی ایک ویب سائٹ بنا کر پیسے بنانے کی ایک تھیلی بنا لی ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے یہ بے بنیاد خبر شائع کردی ہے کہ گوادر میں پاکستان چینیوں کو بحری اڈہ بنانے کی اجازت دے رہا ہے، جو صریحاً جھوٹ پر مبنی ہے، پاکستان کبھی ایسا نہیں کرے گا۔ پاکستان نے گوادر پورٹ کی بندرگاہ کی حفاظت کے لئے 2016ء میں پاکستان نے “Task Force-88” (TF-88) کے نام سے ایک فورس قائم کردی ہے جو ہر وقت مستعد نظر آتی ہے۔ اس فورس کے قیام کی تقریب میں ہم بھی بہ نفس نفیس شریک ہوئے اور ماہنامہ ”انٹریکشن“ اور ماہنامہ ”زاویہئ نگاہ“ نے اس کی روداد بھی شائع کی تھیں۔ دوسرے ہمارے پاس اتنی ملٹری پاور ہے کہ ہم خود اپنی فورس قائم کرسکتے ہیں۔ ہماری فورسز ان چینی دوستوں کی بھی حفاظت کررہی ہیں جو پاکستان میں مختلف منصوبہ جات پر کام کررہے ہیں۔ چینی افواج کو پاکستان میں آنے نہیں دیتے تو ہم اُن کو بحری اڈہ کیسے قائم کرنے دیں گے، یہ ہمارے اصول کے خلاف ہے۔ اگرچہ دُنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس وقت بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کی پیش رفت کو روکنے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہا رہی ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش سے باز نہیں آرہی ہیں مگر ان کو بالآخر منہ کی کھانا پڑے گی اور سی پیک منصوبہ ہر حال میں مکمل ہوکر رہے گا۔ ہم چینیوں کو بحری اڈہ بھی نہیں دیں گے اور بحرانوں پر بھی قابو پا لیں گے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی ایلچی کی آمد کا کیا مقصد ہے۔ کیا کچھ خاص کام ہورہا ہے۔ کیا امریکا کو یہ یقین آ رہا ہے یا کہ پاکستان میں چینی اثرورسوخ بڑھ گیا ہے اور امریکا کے لئے ریڈلائن کے قریب پہنچ گیا ہے یا وہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان سے خود ڈرون حملوں کے لئے اڈہ مانگ رہے ہیں یا بھارت کے لئے رعایت کے طلب گار ہیں تاکہ چینیوں کو گھیرنے کے لئے بھارت کو سہولت فراہم کی جائے یا کوئی ایسی پیش رفت ہورہی ہے جو امریکا کے لئے باعثِ تشویش ہے یا روسیوں کی آمد کی وجہ سے روس کے اثرورسوخ بڑھنے کی امکانات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ فی الحال تو اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے مگر معاملہ کافی گھمبیر ہے اور ممکن ہے کہ چند دنوں میں مزید ایلچیوں کی آمدورفت ہو۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ملک یا ممالک کوئی بڑا قدم اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ماضی کی سیاسی و جنگی تاریخ سے تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کبھی بہت تیزی سے ایلچیوں کی کسی ملک میں آمدورفت شروع ہوتی ہے تو وہ جنگ کا پہلا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور اس میں رسہ کشی، کھینچاتانی کا سلسلہ طویل ہوجاتا ہے۔ کسی اہم ملک کو یا کسی اسٹرٹیجک مقام کے حامل کو اپنی طرف حائل کرنے یا اُس کی مدد کرنے یا اس کو بے اثر کرنے یا نیوٹرل کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔
امریکا نے جنوبی ایشیا میں پاکستان کو چھوڑ کر بھارت سے ناطہ 2007ء سے جوڑ رکھا ہے۔ جب اس نے بھارت سے 123 نامی ایٹمی معاہدہ کیا تھا۔ اب انڈیا امریکا کی اُمیدوں پر پورا اتر رہا ہے یا نہیں یہ دوسری بات ہے، کیونکہ انڈیا کے اثرات سوائے بھوٹان کے اب اُس کے کسی پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہ گئے ہیں۔ نیپال چین سے جڑ گیا ہے، سری لنکا نے بھی چین سے ہاتھ ملا لیا ہے، مالدیپ نے انڈیا کو نکال دیا ہے، بنگلادیش سے اب اس کا اثر کم ہوگیا ہے جس کو بحال کرنے کے لئے انڈیا بھرپور جتن کررہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اِس میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟ اور پاکستان نے بنیادی فیصلہ کرلیا ہے کہ امریکا سے تعلقات خراب تو نہیں کرنے البتہ اب وہ امریکا پر بھروسہ نہیں کرسکتا، وہ چین اور روس سے تعاون بڑھا رہا ہے۔ امریکا ہمیں اسلحہ نہیں دے رہا، وہ ہمارے ازلی دشمن انڈیا کو جدید اسلحہ دے رہا ہے، اُس کو زیادہ سے زیادہ سہولت دے رہا ہے، امریکا نے انڈیا کو ایک بڑی طاقت تسلیم کرلیا ہے۔ وہ روس سے بھی اسلحہ خرید سکتا ہے تو فرانس سے اور امریکا سے بھی۔ انڈیا روس سے تیل خرید کر یورپی ممالک کو بیچ رہا ہے اور مال کما رہا ہے اور پاکستان کو لارے لپے دے رہا ہے، ایسی صورت میں پاکستان کو قدرتی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بقاء کے لئے ہرممکن جدوجہد کرے اور جہاں سے اس کو حمایت مل سکتی ہے وہ حاصل کرے اور امریکا کے بے جا دباؤ سے آزادی حاصل کرے۔