Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

علامہ اقبالؒ کا فلسفہ ”خودی“

علامہ اقبال کے نزدیک ”خودی“ توحید کی محافظ ہے کیونکہ ”لاالہ الااللہ“ کا اصل راز ”خودی“ ہے
عابد نجیب یوسفی
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ وہ معتبر شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے کلام کے ذریعے نوجوانوں میں بیداری کی لہر پیدا کی اور خودی کا درس دیا۔ خودی کا لفظ علامہ صاحب کی شاعری میں بار بار استعمال ہوا ہے۔
خودی کیا ہے، یہ لفظ علامہ صاحب نے کیوں استعمال کیا، خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خودپرستی، انانیت، خودمختاری، نخوت، تکبر، اپنے اوپر بھروسہ کرتے ہوئے سب کچھ حاصل کر لینا کے ہیں، لیکن علامہ اقبال نے اپنے کلام میں ”خودی“ کا لفظ جب بھی استعمال کیا، اُس میں اردو یا فارسی کے مروجہ غرور یا تکبر کے معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ خودی سے مراد دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا نام ہے۔
خودی انسان کی زندگی کا آغاز ہے، اس کا وسط ہے اور زندگی کا انجام بھی خودی ہے، علامہ اقبال کے نزدیک کسی قوم کی ترقی اور تنزلی اُس قوم کی خودی کی ترقی و تنزلی پر منحصر ہے۔
علامہ صاحب فرماتے ہیں ؎
یہ موج نفس کیا تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیداریئ کائنات
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
(ساقی نامہ، بال جبریل)
انسانی جسم دو چیزوں کا مجموعہ ہے مٹی کا جسم اور روح۔ جب تک روح جسم کے اندر ہے تو انسان ہے جیسے ہی روح جسم سے باہر نکل جاتی ہے انسان کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے جسم سے تو واقف ہیں لیکن اپنی روح سے واقف نہیں ہیں۔
یہاں ایک نکتہ بڑا اہم ہے جب مٹی کا جسم بن گیا، فرشتوں کو سجدے کا حکم نہیں ہے۔ سجدے کا حکم اپنی روح اُس جسم میں پھونک دینے کے بعد کا ہے۔
یہ روح کہاں سے آئی ہے، یہ روح اللہ تعالیٰ کی اپنی روح ہے جو اس میں پھونکی گئی ہے۔ اِس روح کو سمجھنا، پہچاننا ہی اصل میں خودی ہے۔ یہ روح اُس جسم میں آنے سے پہلے کیا تھی؟ جسم میں کیا کررہی ہے اور جسم سے باہر نکل کر کہاں جائے گی؟ یہی وہ ”پیغام اقبال“ ہے، ”فکر اقبال“ ہے جہاں علامہ اقبال آج کے نوجوان کو اپنے رب سے روشناس کرواتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس کو ”خودی“ کا نام دیا ہے۔
قرآن پاک میں سورہ الذریت آیت نمبر 21 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور خود تمہاری جان جسم کے اندر، تو کیا تم دیکھتے نہیں۔“
انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے۔
سورہ اعراف آیت نمبر 172 میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
”اور جب تمہارے رب نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو خود اُن کے مقابلے میں اُن سے اقرار کروا لیا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے یہ اقرار اِس لئے کرایا تھا کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہم کو تو اِس کی خبر ہی نہ تھی۔“
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں انسان کو بیدار کرتے ہوئے روح سے روشناس کروایا ہے اور اس کا نام خودی رکھا ہے۔
علامہ کے نزدیک خودی توحید کی محافظ ہے کیونکہ ”لاالہ الااللہ“ کا اصل راز خودی ہے۔ توحید خودی کی تلوار کو آب دار بنا رہی ہے اور خودی کی بدولت اللہ تعالیٰ کی پہچان ہے۔
خودی کا سر نہاں لاالہ الااللہ
خودی ہے تیغ فساں لاالہ الااللہ
(ضرب کلیم)
علامہ اقبال کا پیغام یہ بھی ہے کہ انسان کی اصل کامیابی خودی کے عروج میں ہے۔ اگر خودی ہے تو فقر میں بھی بادشاہی کا لطف اٹھا لیتا ہے اور کائنات کا ہر ذرہ اُس کے زیر تسلط زیر تصرف ہوتا ہے۔
خودی ہے زندہ تو فقر میں شہنشاہی
نہیں ہے سنجرل و طغرل سے شکوہ فقیر
خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر
(خودی کی زندگی)
علامہ صاحب کے نزدیک خودی سے مراد عرفانِ نفس اور خودشناسی بھی ہے۔ اسرارِ خودی کے دیباچے میں آپ رقم طراز ہیں۔ ”یہاں لفظ خودی کے متعلق آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اُس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ اردو میں مستعمل ہے اِس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے۔
خودی کی شوخی و تندی میں کبرو ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو ہے لذتِ نیاز نہیں
(بال جبریل)
خودی کا طالب اللہ تعالیٰ کی محبت میں اِس قدر ڈوب جاتا ہے کہ وہ خودی کے مراحل و مدارج عبور کرنے کے باوجود تشنہ لب رہتا ہے۔ اس تشنگی کو علامہ صاحب نے عشق حقیقی کا نام دیا ہے۔
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بیکراں، میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے کنار کر یا مجھے بے کنار کر
(بال جبریل)
اقبال کا فلسفہ خودی دراصل اِس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے۔
ترجمہ۔ ”یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔“
علامہ اقبال نے خودی کے ذریعے اپنی ذات کے عرفان کا جو درس دیا ہے وہ اصل میں اپنے رب کو پہچاننے کی تلقین کا دوسرا نام ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
(بال جبریل)
خودی کا درس دیتے ہوئے علامہ صاحب کے بے شمار اشعار ان کے کلام میں شامل ہیں۔ امید ہے کہ خودی کے معنی سمجھتے ہوئے ان اشعار کو سمجھنا بھی آسان ہوگا۔

مطلقہ خبریں