نوے نشستوں میں سے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 28 نشستیں ملیں، غیور کشمیری عوام نے دہشتگرد مودی کا غرور زمین میں ملا دیا، ان نتائج کو مودی کے خلاف ”بیلٹ احتجاج“ قرار دیا گیا ہے
میر افسر امان
اٹھارہ ستمبر سے یکم اکتوبر تک تین مراحل میں ہونے والے مقبوضہ کشمیر کے جبری انتخابات میں بھارت کے متعصب وزیراعظم، ہٹلر نما دہشتگرد، دہشتگرد تنظیم آر ایس ایس کے بنیادی رکن نریندر مودی کی پارٹی (بی جے پی) کو عبرت ناک شکست ہوگئی۔ 90 نشستوں میں سے اس کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو صرف 28 نشستیں ملیں۔ غیور کشمیری عوام نے دہشتگرد مودی کا غرور زمین میں ملا دیا۔ ان نتائج کو مودی کے خلاف ”بیلٹ احتجاج“ قرار دیا گیا ہے۔ کشمیری ووٹرز نے حریت کانفرنس کی ہدایات پر اس جبری الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ مودی کی جماعت نے ہر قسم کے ہتھگنڈے اور سرکاری مشینری استعمال کرنے کے باوجود عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئی۔ بھارتی میڈیا جسے بھارت میں ”گودی میڈیا“ کا نام دیا گیا ہے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 18 ستمبر سے یکم اکتوبر پر تین مراحل میں مکمل ہونے والے انتخابات کے نتائج کا منگل کے دن اعلان کردیا گیا۔ ووٹرز کی اکثریت نے اس الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کیا ہے۔ جو ووٹ پڑے اُن میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمراں جماعت بی جے پی کو باوجود ساری حکومتی مشینری استعمال کرنے، جھوٹے وعدے اور غریب لوگوں کو دلاسے دینے کے، 90 میں سے صرف 18 سیٹیں جیت سکی۔ اس کے برعکس اپوزیشن جماعت کانگریس کا انتخابی اتحاد نے 90 میں سے 51 نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ اس اتحاد میں 43 سیٹیں مرحوم شیخ عبداللہ کے بیٹے اور سابق وزیراعظم مقبوضہ جموں وکشمیر، فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کو ملیں۔ 8 نشستیں راہول گاندھی کی کانگریس یا دیگر کو ملیں۔ محبوبہ مفتی سابق وزیراعظم مقبوضہ جموں وکشمیر کی پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک جماعت کو صرف 2 نشستیں ملیں۔ اگر یہ جیتنے والی جماعت میں شامل ہوجائے تو ان کی تعداد 53 ہوجائے گی جو آرام سے حکومت چلانے کے قابل ہوجائے گی۔
دہشت گرد مودی نے ریاست جموں وکشمیر کی ریاست کو آئینی خصوصی حیثیت جو اسے بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 37 اے کے تحت حاصل تھی کو آئین کے مطابق جموں وکشمیر کی پارلیمنٹ کے اجازت لئے بغیر، صرف جموں وکشمیر کے گورنر کے ایک خط بھارتی پارلیمنٹ میں کالے قانون بنا کر 5 اگست 2019ء کو بھارت میں شامل کرلیا۔ لداخ کو کشمیر سے علیحدہ کردیا۔ اس غیرآئینی اقدام پر جموں وکشمیر کے مسلمان لیڈر بھارتی سپریم کورٹ گئے۔ مگر متعصب بھارتی سپریم کورٹ نے آج تک اس غیرآئینی غیرقانونی اقدام کو کا فیصلہ روکا ہوا ہے۔ اس پر کشمیریوں کی نمائندہ جماعت حریت کانفرنس نے دو دفعہ کے انتخابات کو رد کیا ہے۔ اسی وجہ سے دونوں انتخابات میں کشمیریوں نے بہت کم ووٹ ڈالے۔
مودی کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں راہول گاندھی کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ جموں وکشمیر میں جب بھی انتخابات ہوئے ہیں، کانگریس نے کشمیریوں کے آزاد رائے کو جعلی انتخابات کے ذریعے دبائے رکھا۔ ہماری جماعت بی جے پی کشمیر میں کشمیریوں کو انتخابات میں آزادانہ رائے کا موقع دیں گے۔ مگر دو دفعہ انتخابات ہوئے وہی کانگریس والی دھونس دھاندلی، ریاستی وسائل کا استعمال کرکے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس انتخابات میں بھی کشمیریوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے مودی کے خلاف ووٹ دیئے۔ کشمیر میں بھارتی حکومتوں نے کبھی بھی آزادانہ اتخابات نہیں کرائے۔ کرائے بھی تو اپنے پٹھو سیاسی پارٹیوں کو کامیاب کرایا۔ کشمیر کے حقیقی قیادت کو انتخابات کبھی بھی جتنے نہیں دیا۔ اسی طرح کے جعلی انتخابات کو رد کرتے ہوئے کشمیریوں نے بندوق اُٹھائی تھی۔ جسے بھارتی فوج نے مظالم کی حد کرتے ہوئے کچلنے کی کوشش کی۔ یہ تحریک اب بھی جاری ہے۔ اب بھی کشمیری عوام کو غلام رکھنے کے لئے دس لاکھ فوج لگائی ہوئی ہے۔
کشمیری عوام کا بھارت کی ہر حکومت سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ جو بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے ساری دنیا کے سامنے اقوام متحدہ میں وعدہ کیا تھا کہ بھارت کشمیر کے مسلمانوں کو برٹش انڈیا کی تقسیم کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت، کہ جس ریاست میں ہندو زیادہ وہ بھارت میں شامل ہوگی اور جس ریاست میں مسلمان زیادہ وہ پاکستان میں شامل ہوگی۔ اس بات کی اجازت دے گا کہ وہ اپنے آزاد رائے سے پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ کشمیر میں رائے شماری کے لئے اقوام متحدہ نے کئی قراردادیں بھی منظور کی ہوئی ہیں۔ مگر بھارت کی ہر حکومت نے اپنے لیڈر نہرو کے اقوام متحدہ میں وعدے پر آج تک عمل نہیں کیا۔ کشمیریوں کو دس لاکھ فوج لگا کر غلام بنایا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ میں مسلمانوں کے دشمن یہود و نصارا قابض ہیں وہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ بھارت سے ملے ہوئے ہیں۔ جب 1924ء میں مسلمان کی ترکی عثمانی خلافت کو ختم کر کے لاتعداد رجوڑوں میں تقسیم کیا تھا اور اپنے پٹھو حکمران ان راجوڑوں پر مسلط کئے تھے۔ اس وقت کی سپر طاقت برطانیہ کے وزیر دفاع نے اعلان کیا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کی خلافت قائم نہیں ہونے دیں گے۔ اسی ڈاکٹرائین پر عمل کرتے ہوئے کشمیر اور فلسطین کے مسائل آج تک اقوام متحدہ کے منہ پرتماچہ مار رہے ہیں۔ دوسری طرف انڈونیشیا کے ایک جزیرے اورسوڈان میں عیسائیوں کی آبادی نے جب علیحدہ ہونے کا اعلان کیاتواقوام متحدہ نے اس پر عمل کر کے انہیں اقوام متحدہ کا رکن بنا لیا۔ مگر یہ اعلان کشمیر اور فلسطین کے عوام کرتے ہیں تو ان کو علیحدہ وطن کیا بھارت اور اسرائیل کو ان کی نسل کشی کا سرٹیفیکیٹ دیا ہوا ہے۔ بھارت نے 1947ء سے ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کیا۔ ہزاروں کو قید میں رکھا۔ سیکٹروں کوقید کے دوران زہریلی خوراک دے کو آپائچ بنا کر رہا کیا کہ وہ کشمیر کے بازاروں میں پھریں اور آزادی مانگنے والے عبرت پکڑیں کہ آزادی مانگی تو اس طرح بنا دیے جائے گے۔ دس ہزار سے زائد عز ت ماآب کشمیریوں خواتین سے بھارتی سفاک فوجیوں نے اجتماہی آبروریزی کی۔ آپائچ بنائے گئے کشمیری نوجونوں اور اجتماہی آبروریزی پر لکھی گئی کتب میرے ذاتی (لائبریری) میں موجود ہیں۔اب مودی نے غیر کشمیریوں کو کشمیر میں آباد کر کے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے پروگرام شروع کیاہوا۔
کشمیریوں نے آزادی کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ کشمیری کشمیر میں انتخابات نہیں رائے شماری مانگتے ہیں۔ نہیں تو لگتاے کہ کشمیر میں حماس کی طرح کوئی نہ کوئی نوجوانوں کا گروہ اُٹھے گا اور بھارت کو ناکوں چنے چپاوا کر چھوڑے گا۔ آزادی خون دینے سے ہی ملتی ہے۔ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے آئیرلینڈ کے عوام نے سو سال جد جہد کی تھی۔ تب جا کر برطانیہ نے خود اپنے عیسائیوں کو آزادی دی۔ کشمیر کا حل انتخابات نہیں جہاد میں چھپا ہے۔ اس وقت تو بظاہر تو قبرستان کاماحول ہے۔ لیکن کسی وقت بھی حالات بدل سکتے ہیں۔ کشمیر بھی جلد آزاد ہو گا۔ ان شاء اللہ