Wednesday, January 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ایٹمی جنگ سے کیسے بچا جائے۔۔؟

امریکا نے یوکرین کو نیٹو میں شامل تو نہیں کیا مگر سرکاری طور پر اُس کو نیٹو کا حصہ سمجھا جارہا ہے اور اُس کو تباہ کن میزائل خود بھی فراہم کررہا ہے اور ساتھ ہی برطانیہ اور دوسرے ممالک کو بھی یوکرین کی فوجی امداد دینے پر اصرار کررہا ہے، جواباً روس نے کہا ہے کہ اس پر حملہ ہوا تو وہ نیٹو ممالک کو نشانہ بنائے گا، اگر ایسا ہوا تو پھر جنگ نہیں رک سکے گی۔۔!
نصرت مرزا
دُنیا ایٹمی تیسری عالمگیر جنگ کی جانب سرپٹ دوڑے چلے جارہی ہے، یوکرین نے امریکی میزائل روس پر داغے ہیں اور فخر سے اس کا صدر کہہ رہا ہے کہ اس کے اثرات تو بعد میں دیکھیں گے۔ امریکا نے یوکرین کو نیٹو میں شامل تو نہیں کیا مگر سرکاری طور پر اُس کو نیٹو کا حصہ سمجھا جارہا ہے اور اُس کو تباہ کن میزائل خود بھی فراہم کررہا ہے اور ساتھ ہی برطانیہ اور دوسرے ممالک کو بھی یوکرین کی فوجی امداد دینے پر اصرار کررہا ہے۔ جواباً روس نے کہا ہے کہ اس پر حملہ ہوا تو وہ نیٹو ممالک کو نشانہ بنائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر جنگ نہیں رک سکے گی۔ روس ایران سے ڈرون حاصل کررہا ہے، اس لئے کہ روس کے پاس دور مار ہتھیار ہیں کیونکہ اس نے امریکا اور یورپ کو اپنا ہدف بنایا ہوا تھا، اس لئے اس نے دور مار اسلحہ بنایا ہوا تھا۔ یوکرین کے بارے میں تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کبھی جنگ بھی ہوسکتی ہے۔
اگر کہیں یہ چھڑ گئی تو تمام دُنیا کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا، کسی بھی موقع پر ایٹمی ہتھیار استعمال ہوسکتے ہیں، امریکا کی طرف سے تو روس، چین اور شمالی کوریا کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کے مشہور زمانہ میگزین ”فارن افیئرز“ میں میڈیلین گرینڈون اور فرنکنل ملر نے 20 نومبر 2024ء کو ایک مشترکہ مضمون لکھا ہے کہ امریکا کو جنگ کے خطرے سے بچنا ہے تو اس کو امریکی ہتھیاروں کو جدید بنانے کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا یا اس پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اس طرح خوفزدہ روس، چین اور شمالی کوریا کے خوف کو کم کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ دوسری طرف پینٹاگون کے حکام یہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے امریکا کی نہ صرف سبکی ہوگی بلکہ اس کے لئے خطرات بڑھیں گے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اگرچہ تین عشروں کے بعد پہلی مرتبہ امریکا کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور اُس کے ایک رہنما نکیتاخروشوف نے کہا ہے کہ خطرے کی صورت میں ایٹمی روس اسلحہ استعمال کرسکتا ہے، اسی طرح چین کے صدر شی جن پنگ نے ایٹمی اسلحہ کو بڑی تعداد میں جمع کرکے دنیا بھر کو باور کرا دیا ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے۔ اس پر امریکا کے ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل نے چینیوں کے ایٹمی ہتھیاروں کے اجتماع کو خوفناک قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ چین اور روس نے لامحدود دوستی کا معاہدہ بھی کرلیا ہے۔ شمالی کوریا کے صدر نے یوکرین جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ شمالی کوریا اپنے پڑوسیوں اور امریکا کی سرزمین کے اندر میزائل مار کرنے کی صلاحیت رکھنے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ اُس نے ایک ایسے ہی بیلسٹک میزائل کا تجربہ 31 اکتوبر 2024ء کو کیا ہے۔
یہ جو کچھ محسوس اور غیرمحسوس طریقہ سے امریکا کے خلاف ہورہا ہے وہ اُس کی عالمی بالادستی کو نہ صرف چیلنج کرتا ہوا نظر آتا ہے بلکہ امریکا کو دُنیا بھر میں مداخلت سے روکنے کے لئے خطرے سے دوچار کررہا ہے، جس کو شاید امریکا نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اُس کو دُنیا بھر میں اپنی بالادستی کو قائم کرنے کی پالیسی اور دوسرے ملکوں میں مداخلت کرنے کے رویے کو صرفِ نظر کرنا پڑے گا اور ساتھ ساتھ اُس کو یہ تاثر دینا ہوگا کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ کسی قسم کے جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور اُس کو کسی دوسرے ملک میں مداخلت سے باز رہنا ہوگا۔
تاہم اس کے برعکس ان خطرات سے مقابلہ کرنے کے لئے جوبائیڈن انتظامیہ نے اپنے اسلحہ جات جدید سے جدید تر بنانے، اُن کو ترتیب دینے اور اسلحہ سازی کے عمل کو تیز کرنے کا ڈاکٹرائن بنایا تھا، جس کا مطلب یہی ہے کہ باہمی تباہی؟ اور ساری دُنیا میں کروڑوں بے گناہ افراد کی موت؟
امریکا یوکرین کو روس کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ دوسری طرف تائیوان، بھارت اور دیگر ممالک کے ذریعے چین کے اردگرد گھیرا ڈالنے میں لگا ہوا ہے جبکہ چین 2030ء سے پہلے کسی جنگی مہم جوئی میں شامل نہیں ہونا چاہتا تاہم اب اس کو عالم خوف میں اپنی سلامتی کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑھ رہا ہے، اس کے علاوہ امریکا حملہ کرنے کی حامل نئی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے یعنی وہ میزائلوں کو جدید انداز میں اور انتہائی سبک رفتاری سے دشمن پر حملہ آور ہونے پر تحقیق کررہا ہے۔ حملہ کے لئے وہ نئے پلیٹ فارمز تیار کرنے میں لگا ہوا ہے۔ مزید برآں وہ جدید سے جدید اسلحہ بھی بنا رہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا کے پاس ہیروشیما کے انداز یا اس کے ذرا بہتر ایٹمی ہتھیار کی موجودگی ظاہر ہوئی ہے۔ اس لئے وہ کئی ملین ڈالرز ان کو جدید بنانے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ اگرچہ امریکا کو ان کی تیاری میں رکاوٹ کا سامنا ہے، اس کی انڈسٹریل کمپنیوں کی استعداد اس کے لئے دستیاب نہیں ہے، اس کے لئے اس کے پاس میٹریل اور تربیت یافتہ افرادی قوت نہیں ہے اور اس کے پاس وافر مقدار میں فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں ٹرمپ انتظامیہ کے پاس دو ہی راستے ہیں کہ آیا وہ جوبائیڈن کی پالیسی کو جاری رکھتے ہیں یا پھر وہ اس کا ازسرنو جائزہ لیں اور دُنیا میں جیو اور جینے دو کی پالیسی کو اپنا نے یعنی ایٹمی خوف کی پالیسی کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرے یا پھر نئی پالیسی بنائے۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ وہ جدید کے عمل کو اپنائے اور معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرے۔
میں نہیں سمجھتا کہ امریکا کے جن مشکلات کا ذکر امریکی کالم نگاروں یا دانشوروں نے کیا ہے وہ امریکا کو حل کرنا مشکل ہوگا۔ امریکا اس وقت 43 ٹریلین کا مقروض ہے اُس کی 40 فیصد آبادی بے روزگار ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے یہاں وہ فیکٹریاں لگانے کا عزم کیا ہے کہ وہ اس بے روزگاری کو کم کرے اور وہ صنعتیں لگائے جس میں ضروریاتِ زندگی کی پیداوار ہوسکے اور چین کی مصنوعات کو امریکا آنے سے جتنا زیادہ روک سکتا ہے روکے، اگرچہ اس عمل میں وقت لگے گا۔ دوسرے امریکی حکام کو فریب کاری میں ملکہ حاصل ہے، و ہ اعلان کرسکتے ہیں کہ امریکا جدید اسلحہ نہیں بنا رہے اور نہ ہی ایٹمی ٹیکنالوجی میں پیش رفت کررہے ہیں مگر وہ ایسا کرنے سے باز نہیں آئیں گے جیسا کہ انہوں نے 1940ء کے عشروں میں کیا۔ موسمیاتی تغیرات کے عمل کو یہ کہہ کر بند کرنے کا اعلان کیا کہ اس سے انسانیت کو خطرہ ہے مگر انہوں نے روکا نہیں اور 1970ء میں ماحولیات میں تغیر لانے میں کامیاب ہوئے تھے اور آج بھی اُن کا ہتھیار موسمی تغیرات کا آلہ HAARP ہے۔ وہ دُنیا بھر میں سیلاب، سونامی اور زلزلہ لا سکتے ہیں اور شاید وہ آئندہ نسلوں میں اس برتری کو قائم رکھنے کے لئے اس کا مظاہرہ بھی کریں۔
اس کے برعکس دُنیا بھر میں امریکا کی وجہ سے جو خوف ہے وہ کم ہونے کا نام نہیں لیتا اور حالتِ خوف میں تمام دُنیا اپنے آپ کو مسلح کررہی ہے اور جدید اسلحہ حاصل کررہی ہے بلکہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں اپنی برتری قائم کرنے کی سعی کررہی ہے، خصوصاً آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں چین کافی ترقی کر گیا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ چار صدیوں میں سے چوتھی صدی چین کی ہوسکتی ہے، پہلی صدی میکنیکل انجینئرنگ کی تھی وہ برطانیہ کی تھی، دوسری صدی امریکا کی تھی جو الیکٹریکل کہلاتی ہے تو تیسری صدی بھی امریکا کے حصہ میں آئی جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کہلاتی ہے۔ اگرچہ امریکا نے چینی صدر کے اس دعوے کو چیلنج کیا ہے کہ یہ صدی بھی امریکا کی ہوگی کیونکہ اس پر امریکا نے بڑی تعداد میں انجینئرز اور سائنسدان لگا رکھے ہیں۔ چینی صدر سے کہا ہے کہ اگرچہ چین کے پاس 29 یونیورسٹیاں AI پر کام کررہی ہیں جبکہ امریکا 159 کمپنیاں اس پر کام پر لگی ہوئی ہیں، اس لئے امریکی دانشور کہہ رہے ہیں کہ اس دوڑ سے باہر آجائیں اور اپنے ملک کو بچائیں مگر دُنیا میں خوف کو کم کریں چین، روس اور دیگر ممالک نے امریکی بالادستی کو چیلنج کیا ہے مگر امریکا اپنی بالادستی کو قائم کرنے پر مصر ہے اور بڑی جنگ کے خطرے کو بڑھا رہا ہے، روس اور چین دونوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ امریکا اپنی بالادستی کے قیام کے لئے کوشاں رہے گا اور اس کو کمزور کرنے کے لئے مختلف طریقہ استعمال کررہے ہیں۔ وہ امریکا کی اہمیت کو کم کرنے کے درپے ہیں اور ڈالر کی عالمی حیثیت کو کمزور کررہے ہیں۔ انہوں نے تیسری دُنیا جسے اب گلوبل ساؤتھ کہا جاتا ہے اور جس میں اب 120 ممالک ہیں، کو زیراثر لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لاطینی امریکا میں چین نے اپنی تجارت بڑھائی ہے۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ کا منصوبہ پیش کردیا ہے اور سلوگن دیا ہے کہ سب کی ترقی مشترکہ اتحاد پر مشتمل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ امریکا اپنی حرکتوں سے باز آئے گا، جو دُنیا پر غلبہ جاری رکھنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے اور کیا دُنیا تیسری عالمگیر جنگ سے بچ جائے گی۔ یہ وہ سوالات ہیں جس کے جوابات امریکا کے رویے پر منحصر ہے۔

مطلقہ خبریں