بیس جنوری کو امریکی صدر کے حلف اٹھانے کے بعد عالمی بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر کے اندرونی اور بیرونی اقدامات کا اثر عالمی سطح پر پڑتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے پہلے ہی روز 78 ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کئے جن میں سے نصف سے زائد بیرونی معاملات سے متعلق تھے۔ حلف سے ایک دن قبل غزہ جنگ بندی معاہدہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ یہ بائیڈن رجیم کے اقتدار کے آخری روز ہوا، اس کا کریڈیٹ ڈونلڈ ٹرمپ نے لیا لیکن چند دن بعد انہوں نے صحافی کے سوال پر کہا کہ عارضی جنگ بندی مستقل ہوگی یا نہیں اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے جبکہ یوکرین روس پر ان کا مؤقف ہے کہ اس جنگ کو مستقل بند کروانا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے غزہ کے پناہ گزین فلسطینیوں کے لئے مصر اور اردن کو جائے پناہ قرار دیا۔ دونوں ملکوں کو کہا کہ وہ فلسطینی مہاجرین کو اپنے ملکوں میں بسائیں۔ یعنی مقصد غزہ کو اسرائیل کے لئے خالی کروانا ہے۔ فلسطینی صدر، حماس اور اردن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز مسترد کردی۔ اپنے ہی ملک سے فلسطینیوں کی مصر اور اردن منتقلی کسی طور پر قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ حماس اور اسلامک جہاد نے اسے اسرائیلی جنگی جرائم کی حوصلہ افزائی قرا ر دیا۔ امریکی صدر نے گرین لینڈ کے حوالے سے ڈنمارک کے وزیراعظم کو کھلی دھمکی دی کہ امریکا گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرلے گا۔ دراصل اس خطے میں معدنی ذخائر پر امریکا کی نظر ہے۔ اسی طرح پانامہ کینال کو واپس لینے کی دھمکی نے ایک اور الجھن پیدا کردی ہے۔ پھر انہوں نے میکسیکو سے بھی کہا کہ وہ میکسیکن بحر کا نام امریکی بحر رکھ دیں گے۔ جنوبی امریکا کی سرحدوں پر سیکیورٹی بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر نے ایگزیکٹیو آرڈر میں افغان طالبان کو بھی قابو میں رکھنے کا کہا جس پر امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو نے کہا کہ طالبان کے پاس بتائے گئے امریکی شہریوں کی تعداد زیادہ نکلی تو طالبان لیڈروں کے سروں کی قیمت اسامہ بن لادن کے سر کی قیمت سے بھی زیادہ رکھی جائے گی اور مزید امداد سے قبل امریکی ہتھیار واپس کرنا ہوگا۔ ٹرمپ حکومت افغانستان سے بھی سخت رویہ اختیار کررہی ہے۔ حالانکہ 2021ء سے اب تک افغانستان کو 3 ارب ڈالر کی امداد دی جاچکی ہے۔ افغان شہریوں کو امریکا لانے کے عمل کو بھی روکنے کا حکم دے دیا ہے۔ اب افغان پناہ گزینوں کا امریکا جانا مشکل ہوجائے گا۔ ٹرمپ حکومت غیرملکیوں کے امریکا آنے پر سخت پالیسی اختیار کررہی ہے بلکہ غیرقانونی مقیم شہریوں کے خلاف تو کارروائی بھی شروع ہوگئی ہے۔ کولمبیا نے امریکی حکومت کے فیصلے کے خلاف سخت مؤقف دیا تھا جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کولمبین صدر کو کہا کہ آپ کے ملک سے امریکا آنے والے سامان پر 25 فیصد ٹیکس لگا رہے ہیں جو ایک ہفتہ بعد 50 فیصد کردیں گے۔ کولمبین صدر کا کہنا ہے کہ غیرملکی شہری مجرم نہیں ہیں۔ امریکا انہیں باعزت طریقے سے ملک سے جانے کا کہے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ درآمدات کے معاملے پر امریکا میں سختی کررہے ہیں۔ جس کا اثر چین اور یورپ کے دیگر ملکوں پر براہ راست پڑے گا۔ ٹرمپ امریکا کو ایک پروڈکٹونیشن بنانا چاہتے ہیں۔ وہ درآمدات کو کم اور برآمدات بڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ یقیناً چین اور دیگر ممالک اس امریکی پالیسی سے متاثر ہوں گے، ان سارے اقدامات کا ایک عالمی اثر ہوگا۔ ٹرمپ نے تیل کی قیمتیں کم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ کیا اوپیک کے ممالک اس پر غور کریں گے۔ تیل کی قیمتیں کم ہوں گی تو مصنوعات کے پیداواری اخراجات میں کمی آئے گی، جس سے تجارت کو فروغ ملے گا، ساتھ ہی انہوں نے سعودی عرب سے امریکا میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی فرمائش بھی کردی ہے۔ یعنی ٹرمپ جنگوں کے باعث تباہ ہوتی امریکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے عرب ملکوں سے مدد مانگ رہے ہیں۔ اور دوسری جانب جنگوں کو روکنے کی خواہش کا اظہار بھی کررہے ہیں تاکہ اخراجات میں کمی آئے، کیونکہ بائیڈن حکومت کی پالیسی کے تحت ان افغانوں کو امریکا میں آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جنہوں نے امریکا کی افغانستان میں مدد کی تھی۔ نئے ایگزیکٹیو آرڈر کے بعد 40 ہزار افغانیوں کی پروازیں معطل ہوگئی ہیں، ان میں سے 25 ہزار افغان شہری اسلام آباد میں مقیم ہیں کہ وہاں سے امریکا کے لئے روانہ ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ امریکی معیشت کو مستحکم کرنے پر ہے، اس لئے انہوں نے بھارتی وزیراعظم سے دفاعی سامان خریدنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکا کو اس وقت سرمایہ چاہئے، اس کی اسلحہ انڈسٹری اسی صورت چل سکتی ہے جب اس کے خریدار ہوں، بھارت، روس اور فرانس سے ہتھیار خرید رہا ہے، ساتھ ہی روسی سستا تیل بڑی مقدار میں لے کر دوسرے ملکوں کو فروخت کررہا ہے کیونکہ بھارت کے پاس بڑا سرمایہ ہے اور امریکا میں بھیجا جانے والا تجارتی سامان بھی بھارتی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔ بھارتی آئی ٹی انڈسٹری بھی منافع کما رہی ہے، لہٰذا ٹرمپ حکومت کی نظریں بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر پر ہیں۔ روسی تیل اور بھارتیوں کی امریکا آمد پر امریکی ناراض ہیں، غیرقانونی بھارتی شہریوں کو بے دخل کیا جانا ہے، ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں قریبی تعلقات تھے، اس کے باوجود ٹرمپ نے تجارتی حوالے سے غلط فائدہ اٹھانے والا ملک قرار دیا تھا۔ موجودہ حالات میں صدر ٹرمپ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ساختہ ہتھیار خریدے، اسی لئے بھارتی وزیراعظم اگلے ماہ واشنگٹن جائیں گے۔ امریکا کے جنوبی ایشیا کے معاملے پر پالیسی میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کے چین سے دیرینہ تعلقات اور روس سے بڑھتے تعلقات پر بھی امریکا کو تحفظات ہیں۔ پاکستان کے لئے امریکی امداد کا بند ہونا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگرچہ یہ بندش 90 روز کے لئے کی گئی ہے۔ امریکی حکام ازسرنو جائزہ لے کر اس کو جاری رکھنے یا معطل کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ چند ہفتوں قبل امریکا نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر تحفظات کا بہانہ بنا کر 4 پاکستانی کمپنیز پر پابندیاں عائد کی تھیں، حالیہ امریکی امداد بند کرنے کے فیصلے سے پاکستان میں جاری مختلف منصوبے متاثر ہوں گے، جس میں زراعت کے شعبے کے پانچ، اقتصادی نمو کے چار، گورننس کے گیارہ، صحت کے چار شعبے شامل ہیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق کے فنڈز بھی عارضی طور پر روک دیئے گئے ہیں۔ امریکا نے یوکرین، تائیوان اور اردن کے امدادی پروگرامز بھی بند کئے ہیں۔ ٹرمپ حکومت دُنیا کے مختلف ملکوں کو دباؤ میں رکھنے کے لئے ایسے اقدامات کررہی ہے۔ اس کا مقصد سیاسی اور تزویراتی دونوں حوالوں سے ہوسکتا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات دوطرفہ ضرورت کے تحت ہیں، جس میں اتار چڑھاؤ حالات کے مطابق آتے رہتے ہیں لیکن جلد ہی امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑ سکتی ہے، اگرچہ امریکی ڈیپ اسٹیٹ کا خیال ہے کہ خطے میں نئے دوست بن گئے ہیں، اس لئے اسلام آباد کی اہمیت کم ہوئی ہے لیکن تزویراتی لحاظ سے امریکی اندازہ غلط ثابت ہوگا۔