کوئی ایسی راہ تو ہوگی جو عوام پھر سے اپنی فوج کے کمانڈر کے ساتھ ہوجائیں۔۔
نصرت مرزا
انیسویں اور بیسویں صدی میں جنگیں بادشاہوں کے مرضی کے لئے لڑی جاتی ہے۔ اُن کا مقصد بدلہ لینا، توسیع پسندی یا لوٹ مار کرنا یا کوئی بھی وجہ ہوسکتی تھی، اس لئے 1831ء میں پروشین جنرل وان کالیوویٹرز جو ملٹری اسٹرائجسٹ بھی تھا کا کہنا تھا کہ ایک وقت آتا ہے جب کمانڈر کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ بادشاہ کا ساتھ دے یا عوام کا۔ اس وقت بقول اُس کے کمانڈر کو عوام کا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ بادشاہ یا حکمران آتے جاتے رہتے ہیں لیکن عوام تو ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان کا کیس اس سے قدرے مختلف ہے کیونکہ پاکستان میں کمانڈر ہی حکمران بناتا ہے۔ ایک خاص مقصد کے لئے اُس کے حصول کے بعد وہ ان کو ہٹا دیتا ہے۔ عوام کو نہ اقتدار میں آنے کی وجوہات معلوم ہوتی ہیں اور نہ جانے کی۔
پاکستان ایک سیکیورٹی ریاست ہے، اس کے اردگرد دشمن اپنا جال بچھائے بیٹھے ہیں اور ملک کے اندر بھی ریشہ دوانیاں کررہے ہوتے ہیں اور عوام کو اپنی جذباتی نعروں سے اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں مگر فوج کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس لئے کام کررہے ہیں، وہ منہ سے کچھ نہیں بولتے البتہ عملاً اس کی راہ میں چٹان بن جاتے ہیں۔ اگرچہ انہیں اس وجہ سے مخالفت، بدنامی اور عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم کئی مثالیں دے سکتے ہیں، پاکستان کے معرض وجود میں آنے میں پاکستان کے سارے فرقوں، طبقوں اور پاکستان کے موجودہ مخالفین نے بھی اس کے بننے میں مدد کی، جیسے کمیونسٹ حضرات جو دائیں بازو کی جماعت کہلاتی تھی اور سوویت روس کے زیراثر تھی، بہت متحرک اور مزاحمتی فورس تھی، ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان بن گیا تو یہ آسانی سے پاکستان پر اپنا اثرورسوخ جما لیں گے اور اس پر بزور بازو قبضہ بھی کرلیں گے مگر ان کو اسلامی ذہن کا اثر اور طاقت کا اندازہ نہیں تھا، چنانچہ جماعت اسلامی کی اسلامی جمعیت طلبہ ان کے راہ میں حائل ہوئی اور ملک پر جنرل محمد اکبر کے ذریعے قبضہ کرنا چاہا تو وہ بغاوت کچل دی گئی۔ سوویت یونین کا خیال تھا کہ وہ پاکستان پر آسانی سے قبضہ کرلیں گے مگر برطانیہ جس سے پاکستان نے آزادی حاصل کی تھی اور بلوچستان، خیبرپختونخوا جو اس وقت صوبہ سرحد کہلاتا تھا، پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔ پاکستان کی مدد کو اس لئے آیا کہ وہ روس کے سفید ریچھ کو گوادر یا کراچی کے ذریعے گرم پانی پر پہنچنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اسلام کے ماننے والے کبھی غیراللہ کے ماننے والے یہ کمیونسٹوں کو اپنی سرحدوں تک نہیں آنے دیں گے جبکہ جواہر لعل نہرو جو سوشلزم کے پرچاری تھے وہ سوویت روس کو گرم پانی تک آنے کی سہولت فراہم کردیتے۔ چشم فلک نے یہ دیکھا کہ روس اور انڈیا کے درمیان تعلقات بہت گہرے ہوئے انہوں نے مشرق پاکستان کی علیحدگی میں بھی اہم کردار ادا کیا اور پاکستان امریکا کے ساتھ جڑا رہا۔ روس نے ایک مدت کے بعد جو دستاویز افشاء کیں اس سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ روس پاکستان میں انقلاب کی تیاریاں کررہا تھا۔ ان دستاویز کے مطابق سوویت یونین نے وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان کو روس آنے کی دعوت 14 اگست 1948ء کو دی، کیونکہ اس تاریخ کو پہلا یوم آزادی تھا اس لئے کوئی دوسری تاریخ مانگی گئی، چنانچہ انہوں نے اپنی یوم آزادی کی تاریخ دے دی۔ وقت آنے پر یہ کہہ کر دورہ ملتوی کردیا کہ روس کی یوم آزادی کی تاریخ ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس پاکستان میں جو انقلاب لانے کی تیاری کررہا تھا اس کے لئے اسے وقت درکار تھا۔ سو وہ بغاوت پکڑی گئی تو کچل دی گئی۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ لیاقت علی خان کی جیب میں امریکا اور روس کے دورے کے دعوت نامے موجود تھے اور انہوں نے امریکا جانا پسند کیا، اگر ایسا بھی ہوتا تو لیاقت علی خان کو یہی کرنا چاہئے تھا۔ امریکا کے دورے سے ہمیں بڑے فائدے ہوئے، ہماری فوج جدید اسلحہ سے محروم تھی اس کو جدید اسلحہ ملا۔ پہلا جیٹ طیارہ، پہلی آبدوز، اچھے فضائی آلہ جات، جاسوس کے آلات جو انڈیا کو ہمارے سے بیس سال بعد ملے۔ جس کی وجہ سے آج ہم اپنی فضائی، بحری اور بری علاقہ جات کی بخوبی حفاظت کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس فضائی اور بحری حدود کا ڈیٹا موجود ہے، اس لئے جیسے ہی انڈیا یا کسی بھی ملک کی آبدوز ہمارے سمندر میں آتی ہے پاکستانی بحریہ کو پتہ چل جاتا ہے کہ کوئی نئی شے کتنے بڑے سائز کی ہماری سمندری حدود میں آئی ہے۔ پاکستان نے انڈیا کی تین آبدوزیں پکڑ لیں، اس کا انکشاف پاکستان کے روس میں سفیر منصور عالم صاحب نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا، اس گفتگو کے بعد پہلی مثال تو ہم یہ دے سکتے ہیں کہ جنرل اکبر کی بغاوت اگرچہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے تھی اس قت مقبول تھی مگر اس کے پیچھے مقاصد کچھ اور تھے۔ دوسری مثال ہم کراچی و سندھ میں ایم کیو ایم کی لے سکتے ہیں، شہری آبادی میں وہ جماعت بہت مقبول تھی مگر اس کی لیڈر شپ غیرملکی ایجنٹ تھی، اس کی تصدیق خود ایم کیو ایم کے ایک رہنما نے برملا اپنی تقاریر میں کی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پنجاب میں مقبول رہنما عمران خان کو دیکھتے ہیں تو ان کے نعرے اور ان کے اقدامات، بیانات پاکستانی عوام کو بھاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جو طرزِعمل انہوں نے اپنایا، کیا وہ واقعی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ کئی حقیقتوں پر غور کرنا چاہئے، یہ درست ہے کہ عوام امریکا کی بالادستی اور اُس کے پاکستان میں بے جا مداخلت سے نالاں ہیں مگر کیا ہم امریکا کی کھلم کھلا مخالفت کرنے کے اہل ہیں، ہم ان کے مقروض ہیں، اسلحہ کے حصول میں قدرے خودمختار ہوگئے ہیں مگر ابھی بھی ہماری محدود سی حیثیت کالے رنگ والے گورے رنگ والوں کے اذہان کے زیراثر ہے، ہمارے اعلیٰ طبقہ بشمول حکمران سفید وخاکی وردی کے لوگوں کے بچے، بھائی، بہن امریکا اور یورپ میں رہائش پذیر ہیں یا تعلیم حاصل کررہے ہیں یا ملازمتیں حاصل کئے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں، ان کے کارندے ہمارے سارے اداروں میں در آئے ہیں۔ پاکستان ضرور چین، روس کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے لیکن امریکا کے چنگل سے نکلنے میں پاکستان کو وقت لگے گا اور وہ بھی جب کوئی انقلابی اقدامات ہوں یا پیٹ پر پتھر باندھ لیا جائے یا سب ٹیکس دینے لگیں اور ٹیکس قومی خزانے تک پہنچے، جب سب پاکستان سے مخلص ہوجائیں۔ ورنہ ویسے نعرے بازی سے کام نہیں چلے گا بلکہ اور بگڑے گا۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا گرفتار لیڈر شپ میں ملک کو دانشمندی کے ساتھ چلانے کی صلاحیت موجود ہے۔ قرائن سے تو پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہے ان کو نہ سیاست آتی ہے اور نہ حکمرانی۔ اگر وہ جنرل فیض حمید جیسے لوگوں سے رہنمائی حاصل کرکے حکمران بننا چاہتے تھے وہ غلط تھے کیونکہ جنرل فیص حمید صاحب تو خود ان کو دھوکہ دے رہے تھے اور روس کے صدر پیوٹن جوکہ پہلے سوویت یونین کے انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ تھے اور سے اب تک روس پر حکمران ہیں تو اس کے نقش قدم پر چل کر پاکستان پر حکومت کرنا چاہتے تھے، وہ کیا ان سب کو جیل میں نہ ڈالتے یا پھر نہ جانے کیا کرتے۔ ہمارے خیال میں اور اسے تجربہ کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ نہ تو زمینی حالات سے واقف تھے اور نہ آسمانی معاملات سے وہ بیچ میں سے اٹھے تھے اور معلق تھے اور معلق ہی رہیں گے، البتہ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بلا کے مقبول ہیں، ان کے صلاح کا جبکہ ان کے اپنے ساتھی یا مشیر بھی عجیب قسم کے لوگ تھے اور حکمرانی میں بھی انہوں نے ان لوگوں کو شامل کیا جو شوکت خانم کینسر اسپتال کے لئے چندہ جمع کرتے تھے، خود کرکٹر کے انہوں نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ ان سے اتنی خفا کیوں ہے۔ بظاہر تو ذاتی ناراضگی اور ناراض کردینے والے ان کے بیانات اور عملی اقدامات جیسے کسی ملک کے صدر کا آنا اس وقت ہڑتال کی کال دینا۔ اگر پاکستان پر کوئی مشکل وقت ہو تو پاکستان کے مشکلات بڑھانا ہے جو غلط بات غلط تو یہ ہے، تاہم پھر بھی ہمارے خیال میں اگر وہ باسمجھ ہیں تو جنرل حضرات کو ساتھ ہونا چاہئے، انہیں ایسی کوئی راہ نہیں نکالنا چاہئے کہ جو عوام ان کا ساتھ دے رہے تھے اس سے بدظن ہوں یا صورت حال کو سمجھیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان میں خون خرابہ ہو تو وہ مداخلت کرے۔ خون خرابہ وہ بھی اپنی عوام کا کسی چاہے وہ غلط قیادت کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہم پروشین کے جنرل کی بات کریں تو کمانڈر کو عوام کا ساتھ دینا چاہئے۔ ساتھ دینے کے کئی طریقے ہیں ایک تو وہ ان کا مطالبہ اس کو مان لیا جائے یا پھر ان کے حق میں موڑ لیا جائے۔ اب عوام فوج کے حق میں وہ کیسے کرسکتی ہے۔ جب خون خرابہ ہوگیا ہے یا دھمکیاں مل رہی ہوں ان کی عزت پامال ہورہی ہو ان کو دھمکایا جارہا ہو یا ڈرایا جارہا ہو تو عوام کو مشکل میں ڈالنا اور سختی سے دبانے کی روس کو خیرباد کہنا چاہئے۔ پھر اس کے بعد کوئی ایسی راہ تو ہوگی جو عوام پھر سے اپنی فوج کے کمانڈر کے ساتھ ہوجائیں یاکمانڈر عوام کے ساتھ ہوجائے۔ کوئی تو راہ ہوگی۔ صرف تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔