امریکی ثالثی میں روس یوکرین جنگ بندی معاہدہ ہونا اہم پیش رفت ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران بھی یہ کہہ چکے تھے کہ اگر وہ بائیڈن کی جگہ اس وقت امریکا کے صدر ہوتے تو یہ جنگ ہونے ہی نہیں دیتے، بہرحال منصب سنبھالتے ہی انہوں نے روسی قیادت سے تیزی سے رابطے بڑھائے ساتھ ہی یوکرینی صدر کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچا، جس کے بعد ہی روس کا مثبت ردعمل آیا اور روسی صدر نے ٹیلی فون پر گفتگو میں جنگ بندی معاہدے کے نکات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سے قبل روسی اور امریکی وزرائے خارجہ محمد بن سلمان کی ثالثی میں ایک طویل میٹنگ کرچکے تھے، جس میںروس کا مؤقف تھا کہ وہ ایک جیتی ہوئی جنگ کے اختتام کے قریب کیوں معاہدہ کرے، اُسے کیا حاصل ہوگا جبکہ امریکا یہ چاہتا تھا کہ جنگ فوری ختم ہو اور یوکرین کی معدنیات اور توانائی کے وسائل پر وہ معاہدہ کرے۔ دونوں بڑی طاقتوں کے مفادات اور مقاصد الگ الگ تھے لیکن یہ جنگ بندی کے بعد ہی پورے ہوسکتے ہیں۔ مارچ کے آخری عشرے میں روس اور امریکا کے درمیان سعودی دارالحکومت میں ایک اور ملاقات ہوئی جس میں روس نے واضح طور پر کہا کہ اس 3 سالہ جنگ کے دوران یوکرین کے جتنے علاقے پر اس نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے، اُسے واپس نہیں کرے گا۔ امریکا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، اُسے تو یوکرین کی معدنیات اور توانائی کی تنصیبات سے غرض ہے۔ یوں معاملہ تقریباً طے ہے، لگتا ہے یوکرین صرف استعمال ہوا اور دونوں بڑی طاقتیں اپنے اپنے مستقبل کے اہداف حاصل کرنے کے قریب ہیں۔ اگرچہ کیف پر روس نے ایک بڑا ڈرون حملہ بھی کیا، جنگ بندی معاہدے کے مذاکرات کے دوران اس حملے کی ضرورت نہیں تھی لیکن روس شاید یہ بتانا چاہتا تھا کہ جنگ بندی معاہدہ اس کے لئے اتنا اہم نہیں ہے، وہ یوکرین کو طاقت کے بل پر زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر معاہدے کے نکات طے نہ ہوں تو اس کے باوجود بھی وہ اپنے اہداف حاصل کرسکتا ہے۔ روس نے کیف پر ایک ہفتہ کے دوران دو بڑے حملے کئے، اگرچہ ماسکو بھی جنگ بندی چاہتا ہے لیکن اس کا اظہار نہیں کررہا، جنگ بندی کا سب سے زیادہ فائدہ روس کو ہی ہونے والا ہے۔ یوکرین روس جنگ بندی کا تیسرا بینیفشری یورپ ہے، کیونکہ اس کی اجناس اور توانائی کی ضروریات اس جنگ سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔ روس یوکرین جنگ ختم ہونا خطے اور دُنیا کے لئے انتہائی اہم ہے، اسی طرح مشرق وسطیٰ میں فلسطین اور اسرائیل جنگ دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جنونی دہشتگردی دوبارہ شروع ہوگئی ہے، غزہ کے نہتے عوام ایک بار پھر تختہ مشق بنے ہوئے ہیں، چند دنوں کے حملے سے سینکڑوں بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین شہید ہوچکے ہیں، عمارتوں کے ملبوں میں پناہ لئے فلسطین اسرائیلی فضائیہ کی بمباری کا ہدف ہیں۔ حالیہ حملوں میں حماس کے ترجمان سمیت متعدد کمانڈرز مارے گئے ہیں۔ یوں حماس کی حربی صلاحیت ختم کرنے کے ایجنڈے پر اسرائیل بلاروک ٹوک عملدرآمد کررہا ہے۔ حالیہ حملے کا مقصد غزہ کو مکمل طور پر خالی کروانا ہے، جو اسرائیل اور امریکا کا مشترکہ ہدف ہے، جس کا اظہار امریکی صدر نے حلف اٹھاتے ہی کردیا تھا، لیکن عرب اور مسلم دُنیا کے ردعمل کے باعث بات کو گھمانے کی کوشش کرتے رہے، مگر واشنگٹن کا ہدف دُنیا کے سامنے آچکا تھا۔ دراصل امریکا کو یہاں سے آبنائے بنانا ہے، اُسے آبنائے ہرمز پر مسائل کا سامنا ہے۔ یوں وہ ایک ایسی سمندری راہداری چاہتا ہے جو فاصلہ بھی کم کردے اور محفوظ بھی ہو، اگر اسرائیل کی مدد سے غزہ پر قبضہ ہوجاتا ہے تو یہ ہدف آسان ہوجائے گا۔ اسرائیل غزہ کے ساتھ ساتھ شام پر بھی حملے کررہا ہے۔ نیتن یاہو واضح الفاظ میں دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ شام کے علاقے پر بھی قبضہ کریں گے اور غزہ کو مزید ملیامیٹ کرتے رہیں گے، کیونکہ انہیں حماس کی حربی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حالیہ حملوں کے دوران مسلم دُنیا میں مکمل سناٹا ہے، سوائے یمن کے حوثیوں کے ردعمل کے علاوہ کسی اور اسلامی ملک سے اس ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں سنائی دی، حوثیوں نے تو امریکی ایئرکرافٹ کیریئر کو نشانہ بنا ڈالا۔ جس کے جواب میں امریکا نے حوثیوں پر شدید فضائی حملہ کیا، امریکی صدر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ حوثیوں کا خاتمہ کریں گے کیونکہ وہ ایران کا اہم ٹول ہیں، اس لئے ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ امریکا ایک طرف ایران کے اتحادیوں کے خلاف عسکری کارروائیاں کررہا ہے دوسری جانب جوہری معاملات پر ایران سے مذاکرات کی ضرورت پر بھی زور دے رہا ہے، جس کے لئے ٹرمپ انتظامیہ نے 12 مارچ کو ایرانی قیادت کو خط لکھا جس میں 2ماہ کا الٹی میٹم بھی دیا، جس پر ایران کا شدید ردعمل آیا، ایرانیوں نے اسی انداز میں جواب دیا جس لہجے میں خط لکھا گیا تھا۔ ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے میڈیا کو خط سے متعلق بتایا کہ عمان ثالث ہے اس لئے خط اس کے حوالے کردیا ہے، ایران امریکا سے بلواسطہ مذاکرات کرے گا، جوہری معاملات پر مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن دھمکی آمیز انداز بھی برداشت نہیں کریں گے۔ ایران امریکا جوہری مذاکرات کب ہوں گے اور کیا نتیجہ نکلے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کسی صورت کم ہوتا نظر نہیں آرہا، امریکا کو ایران کا مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا اثر کسی صورت قبول نہیں ہے، وہ ایران کے بڑھے ہوئے ہاتھوں کو کاٹنا چاہتا ہے، لبنان کی حزب اللہ کو اسرائیل نے کمزور کردیا ہے، قیادت کے مارے جانے کے بعد حزب اللہ کی عسکری صلاحیت کو خاصا نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح حماس کی مزاحمتی قوت بھی کمزور ہوچکی ہے۔ اب یمنی کے حوثی ہیں جو پوری قوت سے صیہونیت کا جواب دے رہے ہیں، یہ ایران کا ایک مضبوط بازو ہے، یقیناً امریکا اس کو ہدف بنا کر ایران کو تنہا کرے گا اور پھر ایران کا کانٹا نکالے جانے پر کام شروع ہوگا، جس کے بعد دیگر اسلامی ملکوں کی باری بھی آئے گی۔ امریکا گریٹر اسرائیل کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اب تک کے نتائج امریکی اسرائیلی ایجنڈے کے مطابق ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے لئے تمام خطرات کا بتدریج خاتمہ ہورہا ہے، گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بظاہر کامیابی کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ روس اس کے خلاف یہ کرے گا، چین کس طرح رکاوٹ ڈالے گا، یہ ان ملکوں کی پالیسی سے واضح ہوگا۔ اگرچہ ایران اور روس کے درمیان دفاعی معاہدہ بھی ہے جبکہ چین سے ایران کے اسٹرٹیجک تعلقات ہیں، خصوصاً چابہار بندرگاہ سے متعلق دونوں ملکوں میں بڑی قربت ہے۔ چین ایران میں بڑی سرمایہ کاری بھی کررہا ہے لیکن ایران کے خلاف ہونے والی عسکری کارروائیوں میں ان دونوں ملکوں کا ردعمل حسب توقع ہونا ضروری نہیںہے، کیونکہ موجودہ زمانے میں کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی جنگ نہیں لڑتا، سب کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ویسے بھی دُنیا کے مختلف خطوں میں نئی تقسیم کسی بھی بڑے ملک کو ایڈوانچر ازم سے روکے گی کیونکہ بڑی طاقتیں دُنیا کی تقسیم پر راضی نظر آرہی ہیں، بس حصہ بقدرحبثہ کا فارمولا طے ہونے میں وقت درکار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یورپ، ایشیا میں آئندہ کا میدان جنگ سجنے کو تیار ہے، اب اس کا آغاز کہاں سے ہونا ہے یہ بھی بڑی طاقتوں کے اقدامات پر منحصر ہے، ہوسکتا ہے کہ یورپ اور روس کا ٹکراؤ ہو۔ زیادہ امکان برطانیہ اور روس کے ٹکراؤ کا ہے جو امریکیوں کی دیرینہ خواہش بھی ہے کیونکہ اس سے اس کے دونوں حریف تباہی کا شکار ہوں گے اور امریکا کی بالادستی کا میدان صاف ہوتا جائے گا۔ چین کو تائیوان اور جنوبی بحرچین کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش ہوگی، چین کی بڑھتی معاشی اور عسکری طاقت پر امریکا کو بڑے تحفظات ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اس سے متعلق پالیسی پر عملدرآمد بتدریج کررہے ہیں، وہ تائیوان کی پشت پناہی کے ساتھ جاپان اور فلپائن کو بھی عسکری طور پر مضبوط کررہے ہیں تاکہ جنوبی بحرچین کا میدان چین کے لئے سخت ترین ہو۔ بہرحال دُنیا ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے نتائج کے بعد خطوں اور ملکوں کی نئی تقسیم ہوگی۔ جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے یالٹا کانفرنس میں دُنیا تقسیم کے معاملات طے ہوئے تھے۔