Monday, April 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نیٹو کا مستقبل

یوکرین پر امریکی یوٹرن سے عالمی سطح پر خصوصاً یورپی ممالک میں جو خدشات پیدا ہوئے ہیں ان میں
سب سے اہم یہ ہے کہ نیٹو کا مستقبل کیا ہوگا، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا کی سرکردگی میں ہونے والے
اس معاہدے کو یورپ کے دفاع اور سیاست میں دہائیوں تک مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے

ڈاکٹر رشید احمد خاں

یوکرین پر امریکی یوٹرن سے عالمی سطح پر خصوصاً یورپی ممالک میں جو خدشات پیدا ہوئے ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ نیٹو کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا کی سرکردگی میں ہونے والے اس معاہدے کو یورپ کے دفاع اور سیاست میں دہائیوں تک مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یوکرین کا مسئلہ جس نے فروری 2022ء میں جنگ کی صورت اختیار کر لی تھی اصلاً نیٹو کے گرد ہی گھومتا ہے۔ 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تو سوویت یونین کی فوجیں یورپ کے مرکز برلن میں پہنچ چکی تھیں اور مشرقی یورپ کے بعد سوویت یونین نے جرمنی کے جن علاقوں پر قبضہ کیا ان پر مشتمل مشرقی جرمنی کے نام سے ایک کمیونسٹ ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔ یہ صورتِ حال مغربی ممالک خصوصاً امریکا کے لئے‘ جس کی دفاعی حکمت عملی میں یورپ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، سخت خطرے کا باعث تھی کیونکہ یورپ کے عین وسط میں کمیونسٹ سوویت یونین کی سیاسی اور عسکری موجودگی سے مشرقی یورپ کی طرح مغربی یورپ میں بھی مقامی کمیونسٹ پارٹیاں انقلاب لا کر سوویت یونین کی حامی حکومتیں قائم کر سکتی تھیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے مغربی یورپی ممالک میں معاشی بحران‘ سیاسی بحران کی شکل اختیار کر رہا تھا۔ خصوصاً فرانس اور اٹلی، جہاں کی کمیونسٹ پارٹیاں بہت منظم اور فعال تھیں، وہاں آئے دن حکومتیں تبدیل ہو رہی تھیں۔ اس موقع پر امریکا، جو بحر اوقیانوس کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا تھا، یورپ کی مدد کو پہنچا اور بحالی کے لئے مارشل پلان اور ممکنہ سوویت حملے کو روکنے کے لئے 1949ء میں نیٹو کے تحت مالی اور دفاعی امداد مہیا کی۔ دیگر دفاعی معاہدوں کے مقابلے میں نیٹو کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے آرٹیکل پانچ کے تحت اس کے کسی رکن ملک پر حملہ باقی تمام رکن ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ معاہدہ مغربی یورپ کے کسی بھی ملک پر سوویت یونین کے حملے کو روکنے کے لئے کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لئے امریکا نے نیٹو رکن ممالک میں اڈے قائم کرکے نہ صرف وہاں لاکھوں کی تعداد میں فوجی تعینات کئے بلکہ ایٹم بموں کو لے جانے والے دور مار میزائل اور ہوائی جہازوں کو بھی تعینات کردیا جو سوویت یونین پر حملہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
نیٹو کا قیام اور اس کی توسیع دراصل شروع ہی سے امریکا اور سوویت یونین (موجودہ روس) کے مابین سرد جنگ سے منسلک رہی ہے۔ مثلاً 1949ء میں صرف 12 ممالک کی شمولیت کے بعد 1952ء میں نیٹو میں جن دو ممالک (یونان اور ترکیہ) کو شامل کیا گیا، اس کی سب سے بڑی وجہ آبنائے باسفورس کے راستے مشرقی بحیرئہ روم میں سوویت یونین کے بحری جہازوں کی انٹری کو کنٹرول کرنا تھا۔ اسی طرح 1955ء میں مغربی جرمنی کو نیٹو میں شامل کر کے امریکا سوویت یونین کو مغربی ممالک کے دفاع کے بارے میں ایک سخت پیغام دینا چاہتا تھا، تاہم اس کے بعد امریکا کی طرف سے سوویت یونین پر دباؤ ڈالنے کے لئے ایک عرصہ تک کوئی اقدام نہیں کیا گیا بلکہ وسطی یورپ میں سرد جنگ کی وجہ سے جاری کشیدگی کو کم کرنے اور حالات کو معمول پر لانے کے لئے بات چیت اور اتفاقِ رائے کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اس کی بڑی مثال آسٹریا کو ایک غیرجانبدار ملک قرار دینے کا معاہدہ (1955ء) ہے، جس میں سوویت یونین بھی شامل تھا۔ اس کے بعد کافی عرصہ تک نیٹو کی رکنیت میں توسیع نہ کی جا سکی کیونکہ سوویت یونین نے 1960ء کی دہائی کے آخر میں یورپ میں اپنے اڈوں سے بحر اوقیانوس کے پار امریکا کے مشرقی ساحل پر واقع شہروں کو ایٹمی حملوں کا نشانہ بنانے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تیار کر لئے، جس کے نتیجے میں امریکا سوویت یونین کے ساتھ کسی تصادم کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ اس کے علاوہ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں دونوں سپر پاورز میں کشیدگی اور محاذ آرائی میں کمی اور اسٹرٹیجک تعاون کا ایک دور آیا جسے ”Detente” کہا جاتا ہے۔ اس دور میں امریکا کا نشانہ چین تھا کیونکہ وہ ویتنام جنگ میں امریکی فوجوں کے خلاف لڑنے والے ویتنامی آزادی پسندوں کی حمایت کر رہا تھا۔ اس دوران روس کے ساتھ امریکی تعلقات دوستانہ اور کشیدگی سے پاک تھے لیکن 1989ء میں دیوارِ برلن کے گرنے اور اس کے بعد مشرقی یورپ میں کمیونسٹ حکومتوں کے خاتمے، وارسا پیکٹ کی تحلیل اور 1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکا نے سمجھا کہ اب دُنیا میں وہ واحد سپر پاور ہے۔ نہ صرف عسکری بلکہ معاشی شعبے میں کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اب یہ امریکا کا دور ہے اور وہ باقی دُنیا، اقوامِ متحدہ یا بین الاقوامی قانون کی پروا کئے بغیر جو قدم چاہے اٹھا سکتا ہے۔ اس کے نزدیک اس وقت روس، جس نے سوویت یونین کی شکل میں امریکا کو 1971ء میں چین کے ساتھ دوستی کرنے پر مجبور کردیا تھا، کو ایک بڑی طاقت کا رتبہ حاصل کرنے سے ہمیشہ کے لئے روکا جا سکتا ہے، اس لئے اس نے نیٹو کے دفاعی معاہدے کا دائرہ ان ممالک تک پھیلا دیا جن کی سرحدیں روس سے ملتی تھیں۔ نیٹو میں توسیع کے اس سلسلے میں اس معاہدے کے ارکان کی تعداد 2024ء میں 32 ہو چکی، جو 1949ء میں فقط 12 تھی۔ یوکرین کو بھی نیٹو میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے یوکرین میں روس مخالف سیاسی عناصر کو برسراقتدار لایا گیا حالانکہ سوویت یونین سے علیحدگی اور آزادی کے اعلان کے وقت یوکرین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ نہ تو ایٹمی طاقت بنے گا اور نہ کسی دفاعی معاہدے میں شریک ہوگا مگر 2008ء میں بخارسٹ میں منعقد ہونے والی نیٹو سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کی پیشکش کی گئی، جسے 2021ء میں نیٹو سربراہی کانفرنس برسلز میں دہرایا گیا۔ اس پر روس نے خبردار کیا کہ اگر یوکرین کو نیٹو میں شامل کیا گیا تو وہ یوکرین میں فوجیں داخل کر دے گا۔ اب صدر ٹرمپ خود کہہ رہے ہیں کہ یوکرین پر نیٹو کے دروازے بند ہیں بلکہ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر نیٹو کے یورپی رکن ممالک نے اس کے اخراجات کے اپنے حصے میں اضافہ نہ کیا تو امریکا نہ صرف یورپی ممالک کے دفاع کی ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لے گا بلکہ نیٹو سے علیحدہ بھی ہوجائے گا۔ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے بااثر اراکینِ کانگریس اور صدر ٹرمپ کے قریبی دوست اور مشیر ایلون مسک نے تو اعلانیہ نیٹو سے علیحدگی کی حمایت کی ہے مگر امریکی اور یورپی ماہرین کے مطابق یہ ٹرمپ کی گیدڑ بھبکیاں ہیں۔ دراصل وہ یورپی ممالک کو اپنے دفاعی اخراجات اور نیٹو کے سالانہ اخراجات میں حصہ بڑھانے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت یورپی ممالک اپنے جی ڈی پی کا 2 فیصد حصہ دفاع پر خرچ کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کا مطالبہ ہے کہ یہ تناسب 5 فیصد تک بڑھایا جائے۔ نیٹو کے بارے میں صدر ٹرمپ کے بیانات اور یوکرین پر امریکی یوٹرن سے سبق سیکھتے ہوئے یورپی ممالک خصوصاً برطانیہ اور جرمنی نے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس لئے ماہرین کی رائے میں امریکا نیٹو سے کبھی الگ نہیں ہوگا کیونکہ اس سے نہ صرف یورپ میں امریکی سرمایہ کاری اور تجارتی مفادات خطرات کا شکار ہو جائیں گے بلکہ امریکا اپنے مشرقی ساحل کو ایک ڈھال سے محروم کر دے گا۔ نہ صرف نیٹو بلکہ امریکا اور یورپ کے تعلقات کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہو چکا۔ یورپ، جس کے بڑے شہر انیسویں صدی تک عالمی سیاست کا محور تھے، اب ایک نیا کردار ادا کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یورپ کی سیاست اور دفاعی امور میں نیٹو کی اہمیت اور افادیت میں بتدریج کمی سے یہ معاہدہ کچھ عرصہ بعد غیرمتعلقہ ہوجائے گا۔

مطلقہ خبریں