Monday, April 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن۔۔

پاکستان اور بھارت کے مابین تمام تر اختلافات اور دشمنی کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ صرف کشمیر کا مسئلہ ہے

ڈاکٹر احمد سلیم

کئی مرتبہ ایسے غلط فیصلے کر دیئے جاتے ہیں جن کا خمیازہ آنے والی نسلوں اور کروڑوں عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی ایک غیرمنصفانہ اور ظالمانہ فیصلہ 16 مارچ 1846ء کو کیا گیا جس کی وجہ سے کشمیر کی نہتی اور مظلوم عوام کی بدقسمتی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر کی وادی (بمعہ لاکھوں نفوس جن کی بھاری اکثریت مسلمان تھی اور ہے) گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دی۔ اس کو سمجھنے کے لئے تاریخ میں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کو کشمیر کا یہ تحفہ 1841ء میں افغانوں کے خلاف جنگ میں انگریزوں کی مدد کرنے اور پھر 1845ء میں Obraon کے مقام پر ’’سکھوں اور انگریزوں کی مابین لڑی جانے والی جنگ میں‘‘ راجہ گلاب سنگھ کی اپنی قوم سے غداری کے انعام کے طور پر عنایت کیا۔ بالکل اسی طرح جیسے انگریز سرکار نے بنگال میں میر صادق اور میر جعفر کو ان کی غداری اور قوم فروشی کے عوض زر و زمین سے نوازا تھا۔ راجہ گلاب سنگھ نے سکھوں سے مدد کے وعدے کے باوجود‘ عین وقت پر دھوکہ دیتے ہوئے ان کی مدد کرنے سے انکار کردیا جس کی بنا پر ایک طرف سکھ انگریزوں سے بُری طرح شکست کھا گئے تو دوسری جانب انگریزوں سے وفاداری کے انعام کے طور پر راجہ گلاب سنگھ انگریزی دربار کا اہم رکن بن گیا۔ ویسے تو کشمیریوں کی غلامی کی تاریخ ا س سے بہت زیادہ پرانی ہے۔ کشمیر کبھی اشوکا کے زیرانتظام رہا تو کبھی ہندئوں، بدھ مت اور اس کے بعد شیو کے پیروکاروں گے۔ ترک اور فارس کے رہنے والے بھی یہاں حاکم رہے۔ اور پھر مغل۔ مغل سلطنت کمزور ہونے کے بعد درانی خاندان اور اس کے بعد 1819ء میں کشمیر سکھ سلطنت کا حصہ بن گیا۔ سکھوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے شکست کے بعد سکھ سلطنت کی مہارانی ’’جندن‘‘ نے اپنے وزیر ’’گلاب سنگھ‘‘ کو انگریزوں سے صلح کے لئے کوئی راستہ نکالنے کے لئے بھیجا۔ قصہ مختصر یہ کہ گلاب سنگھ نے جو راستہ نکالا وہ سکھ سلطنت کے مفادات کا قاتل بھی ٹھہرا اور اس معاہدے کی بنیادوں پر اس کے بعد سے اب تک کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آج بھی نہ صرف اس خطے کے لئے بلکہ عالمی امن کے لئے بھی مسلسل خطرہ ہے۔ گلاب سنگھ نے 16 مارچ 1846ء کو انگریز سرکار (ایسٹ انڈیا کمپنی) کے ساتھ ایک معاہدے (معاہدہ امرتسر) پر دستخط کئے جس کے تحت انگریزوں نے 75 لاکھ نانک شاہی روپوں کے عوض کشمیر اور اس سے متصل بہت سا علاقہ اسے فروخت کر کے اسے اور اس کی آنے والی نسلوں کو کشمیر کا حکمران اور انگریزوں کے سائے میں کشمیر کو ایک الگ ریاست تسلیم کرلیا۔ اس وقت کشمیر کی 93 فیصد آبادی مسلمان تھی جسے گلاب سنگھ نے انگریزوں سے ذاتی جائیداد اور غلاموں کے طور پر خریدا لیا تھا۔ یہ تو صرف انگریزوں کا کمال ہے کہ دنیا کے ’’مہذب‘‘ لوگ اس سیاہ اور ظالمانہ خرید و فروخت جس میں زمین پر قبضے کے ساتھ ساتھ لاکھوں انسان بھی غلام بنے کو ایک ’’معاہدے‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ مشہور انگریز محقق اور مصنف ’’والٹر لارنس‘‘ کے مطابق اس دور میں ڈوگرہ حکومت نے کشمیر کے مسلمانوں کے لئے نہ صرف پانی سے لے کر سانس تک ہر شے پر بھاری ٹیکس عائد کر دیئے تھے بلکہ ان پر مظالم اور قتل و غار ت کی انتہا کردی تھی۔ اسے کوئی سازش کہے یا معاہدہ، پاکستان اور بھارت کے مابین تمام تر اختلافات اور دشمنی کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ صرف کشمیر کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ دشمنی نہ ہوتی اور دونوں ممالک اربوں کے دفاعی بجٹ رکھنے کی بجائے یہ پیسہ اپنی عوام کی فلاح کے لئے خرچ کررہے ہوتے تو اس خظے کی سیاست اور معیشت کا کیا رنگ اور یہاں کی عوام کی خوشحالی کا کیا عالم ہوتا؟ تقسیم ہند کے موقع پر آزاد ریاستوںکو 3 جون کے منصوبے کے تحت اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں۔ جہاں کچھ ریاستیں اپنی مرضی استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئیں وہاں بہت سی ریاستوں پر بھارت نے زبردستی قبضہ کر لیا۔ ان میں سب سے اہم ریاست کشمیر کی تھی، جس کے ہندو راجہ ہری سنگھ نے غالب مسلمان آبادی کی وجہ سے چالاکی سے کام لیا اور سب سے پہلے 15 اگست 1947ء کو پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ 26 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے یہ دعویٰ کردیا کہ کشمیر کے راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا ہے اور اگلے ہی روز بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کردیں۔ یہ سب اقدامات نہ صرف کشمیری آبادی کی امنگوں کے خلاف تھے بلکہ پاکستان کے ساتھ کئے گئے اور تقسیم ہند کے بنیادی قانون اور فلسفے سے بھی متضاد تھے۔ 2 نومبر 1947ء کو بھارت کے وزیراعظم نہرو نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان اور وعدہ کیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق، اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے سے کیا جائے گا۔ حالات زیادہ خراب ہوئے اور مئی 1948ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی، اور بھارت خود اس مسئلے کو لے کر اقوام متحدہ لے گیا۔ 27 جولائی 1947ء کو پاک بھارت جنگ بندی ہوگئی۔ 5 جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کے قائم کردہ ’’یونائیٹڈ نیشن کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان‘‘ (UNCIP) نے، جس کے ممبر ممالک میں ارجنٹینا، بیلجیم، کولمبیا، چیکوسلوواکیا اور امریکا شامل تھے، باضابطہ اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے مؤقف سننے کے بعد کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ حق رائے دہی کشمیری عوام کا بنیادی حق ہے اور پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے بارے میں کشمیری عوام کی مرضی اور رائے جاننے کے لئے کشمیر میں استصواب رائے ہی واحد قانونی راستہ ہے اور فیلڈ ایڈمرل چیسٹر نمٹز (Chester. W. Nimitz) کو استصواب رائے کے انعقاد کے لئے ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کیا گیا۔ یہ قرارداد بھی پاس کی گئی کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل غیرجانبدارانہ اور آزادانہ استصواب رائے ہے جس میں کشمیر کی عوام کو یہ آزادی دی جائے کہ وہ بغیر کسی دبائو کے اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ (بحوالہ اقوام متحدہ کمیشن برائے پاک و ہند، دستاویز نمبر 5/1196، بتاریخ 10 جنوری 1949ء)۔ آنے والے وقتوں میں اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے حق میں 31 سے زائد قراردادیں پاس کیں۔ کراچی معاہدہ ہوا، متعدد پاک بھارت جنگیں، شملہ معاہدہ، واجپائی کی دوستی بس اور پھر جنرل پرویز مشرف کا چار نکاتی منصوبہ بھی زیرغور آیا۔ آج انتہاپسند مودی سرکار نے کشمیریوں کے لئے حالات اور بھی ’’بدتر‘‘ کر دیئے ہیں۔ جانے کشمیریوں کو اپنی مرضی سے جینے کی آزادی کب نصیب ہوگی؟

مطلقہ خبریں