Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نئی حلقہ بندی سے ہندوریاست بنتا کشمیر

پانچ اگست 2019ء کے اقدام کے بعد بھارت نے کئی ایسے قوانین بنائے ہیں جو متنازع علاقہ ہونے کی بنا پر غلط ہیں، اِن قوانین کی رو سے بھارت سے لائے گئے ایسے شہریوں کو بھی ریاست کا باشندہ قرار دے دیا گیا ہے جن کا مقبوضہ کشمیر سے کوئی تعلق ہی نہیں، ایسے حربوں سے صاف ظاہر ہے بھارت کشمیر ہڑپ کرنا چاہتا ہے
حمید اللہ بھٹی
بھارت کے بنائے حد بندی کمیشن نے گزشتہ ماہ 5 مئی 2022ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کردی ہے، جسے بی جے پی کے سوا تمام جماعتوں نے تسلیم کرنے کے بجائے مسترد کردیا ہے، کیونکہ سیاسی جغرافیہ تبدیل کرنے کے ساتھ مذہبی اور ثقافتی منظرنامہ بدلنے کی ایک ایسی چال ہے جس سے چناب وادی، جموں کے پیر پنجال اور وادی کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی اقلیت میں بدل جائے گی، یہ اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں کشمیریوں سے آزادانہ اور منصفانہ استصوابِ رائے کے وعدوں سے انحراف کی ایک ایسی سازش ہے جس کی تکمیل سے مقبوضہ کشمیر کو ایک ہندوریاست ثابت کرنا مشکل نہیں رہے گا، یہ مذہبی تنگ نظری کا ایک ایسا منصوبہ ہے جو عالمی برادری کی بے حسی اور مذہبی تعصب سے کامیابی کے قریب ہے لیکن یہ تعصب خطے کے امن کو ہمیشہ کے لئے خطرات کے الاؤ میں جھونک دے گا۔
بھارتی عدالتیں ہوں یا سیاسی جماعتیں، سب کشمیر کو بھارت کا حصہ بنائے رکھنے پر یقین رکھتی ہیں، 6 مارچ 2020ء میں رنجنا ڈیسائی جو سپریم کورٹ کے ایک سابق جج ہیں کی سربراہی میں حلقہ بندی کے لئے ایک تین رکنی کمیشن بنایا گیا جس نے شاطرانہ عرق ریزی سے ایسے حلقے تشکیل دیئے ہیں جہاں سے ہندو امیدوار باآسانی جیت سکیں، اِس کے لئے دو مرتبہ کمیشن کی مدت میں توسیع بھی دی گئی تاکہ مسلم امیدواروں کے لئے زیادہ سے زیادہ مسائل پیدا کئے جا سکیں، اِس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 2011ء کی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندی کی گئی ہے جس کے تحت کٹھ پتلی اسمبلی کی نشستیں 83 تھیں مگر اُسی آبادی کے تحت ہونے والی موجودہ حلقہ بندی میں 7 نشستیں بڑھا کر 83 سے بڑھا کر 90 کردی گئی ہیں، شاطرانہ چال چلتے ہوئے جموں میں کل ریاستی آبادی کا 44 فیصد ظاہرکرتے ہوئے 37 سے 43 جبکہ وادی کشمیر کے باقی حصے میں کُل آبادی کا 56 فیصد بتانے کے باوجود 46 میں صرف ایک اسمبلی نشست کا اضافہ کرتے ہوئے 47 کردیا گیا، ساتھ ہی کشمیر کو خیرباد کہہ جانے والے پنڈتوں کے لئے بھی ایک خاتون سمیت دو نشستوں کی سفارش کردی گئی ہے، صاف ظاہر ہے یہ حلقہ بندی خلوص نہیں بدنیتی پر مبنی ہے اور مقصد لوگوں کو جمہوری حقوق دینا نہیں غاصبانہ قبضہ مستحکم کرنا ہے، کمیشن کی ایک اور جانبداری یہ ہے کہ 1947ء میں آنے والے ہندو فوجیوں کو بھی اسمبلی میں نمائندگی دینے کی تجویز دی گئی ہے، یہ مسلم آبادی سے سراسر ناانصافی ہے مگر مذہبی اور انسانی حقوق کی باتیں کرنے والی عالمی برادری چپ ہے جبکہ اِس مسئلہ کے اہم فریق پاکستان میں اقتدار کی رسہ کشی عروج پر ہے، اسی لئے بھارت تعصب پر مبنی ناپاک اور شرمناک حرکتوں سے وادی کا سیاسی منظرنامہ بدل رہا ہے، اگر پاکستان غاصب حکومت کے اقدامات کو بے نقاب کرے تو بھارت یوں ڈھٹائی سے مقبوضہ علاقے کو اپنا حصہ ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہو۔
5 اگست 2019ء کے اقدام کے بعد بھارت نے کئی ایسے قوانین بنائے ہیں جو متنازع علاقہ ہونے کی بنا پر غلط ہیں، اِن قوانین کی رو سے بھارت سے لائے گئے ایسے شہریوں کو بھی ریاست کا باشندہ قرار دے دیا گیا ہے جن کا مقبوضہ کشمیر سے کوئی تعلق ہی نہیں، ایسے حربوں سے صاف ظاہر ہے بھارت کشمیر ہڑپ کرنا چاہتا ہے، اب تو ایسے لوگوں کے لئے اگلے مرحلے میں الگ بستیاں بسانے کا بھی منصوبہ ہے لیکن مودی سرکار کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایسے ہی ہتھکنڈوں سے رائے شماری کے لئے کشمیریوں نے 1990ء میں زوردار مسلح مزاحمت شروع کی، اب بھی اگر دیوار سے لگانے اور بنیادی حقوق سلب کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو غلامی کا طوق اُتارنے کے لئے کشمیر میں جذبہ حریت فروغ پائے گا کیونکہ 1947ء میں یہاں مسلم آبادی کے بدترین قتلِ عام اور تمام تر ہتھکنڈوں اور سازشوں کے باوجود راجواری، ڈوڈہ، رام بن، پونچھ، بھدرواہ اور کشتواڑ کے اضلاع میں نصف سے زائد آبادی آج بھی مسلمان ہے، پھر بھی جموں کو ہندو اکثریتی علاقہ کہا جارہا ہے، اب ہندو امیدواروں کو جتوانے کے لئے مسلم ووٹ فہرستوں سے حذف کرنے کا منصوبہ ہے، حلقہ بندی کا عمل اِس سے بھی مشکوک ثابت ہوتا ہے کہ سارے ہندوستان میں یہ عمل 2026ء میں ہونا ہے لیکن خاص طور پر کشمیر میں قبل ازوقت ہی یہ کام کرنا بذاتِ خود ایک سوالیہ نشان ہے، اِس سازش کا پردہ چاک کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے لیکن یہاں خاموشی کا راج ہے۔
بھارت کمالِ مہارت سے روس کے ساتھ امریکا کی آنکھ کا بھی تارا ہے، ایک طرف روس و یوکرین جنگ کی مذمت کے لئے پیش ہونے والی قراردادوں کی حمایت یا مخالفت کرنے کے بجائے غیرجانبدار ی کی آڑ میں غیرحاضر رہتا ہے تاکہ روسی ناراضگی سے محفوظ رہے تو ساتھ ہی چین کے خلاف ہونے والے امریکی گھیراؤ کا بھی اہم حصہ ہے، یہ ایسی پالیسی ہے جس نے اُسے خطے کی معاشی و دفاعی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، بات صرف دفاعی و معاشی طاقت بننے تک محدود نہیں بلکہ دونوں طاقتوں کے منظورِ نظر ہونے سے اُس کے عالمی کردار و اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے، دونوں طاقتوں جن کے سفارتی تعلقات میں تناؤ ہے اور ایک دوسرے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں، کمالِ مہارت سے بھارت نے خود کو دونوں کے لئے ناگزیر ثابت کرتے ہوئے روس سے سستے داموں تیل اور کوئلہ خریدنے کے ساتھ امریکی سے جدید ترین ہتھیار حاصل کررہا ہے، روس اور امریکا باہمی نفرتوں کے باوجود بھارت کی نازبرداری پر مجبور ہیں جس کا جنوبی ایشیا پر یہ اثر ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں بھارتی ناراضگی کے ڈر سے دونوں طاقتیں بات نہیں کرتیں، اسی بنا پر اُسے حلقہ بندی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل طلب کے بجائے حل شدہ ثابت کرنے کی جسارت کا موقع ملا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر تقسیمِ ہند کا ایک ایسا دیرینہ مسئلہ ہے جو آج تک حل طلب ہے، 1947ء کے دوران کشمیر سے جنم لینے والی آزادی کی تحریک نے ثابت کردیا کہ یہ مسلم اکثریتی ریاست بھارت کی محکومی اختیار کرنے پر آمادہ نہیں، حریت پسندوں کے وادی میں داخلے سے خوفزدہ بھارت خود یہ مسئلہ یو این او لے کر گیا اور عالمی برادری سے وعدہ کیا کہ حالات معمول پر آتے ہی کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے حقِ خوداِرادیت دیا جائے گا، 1972ء میں ہونے والے شملہ معاہدے میں کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے، بعد میں ماضی کی تلخیاں بھلا کر دونوں ممالک نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اٹل بہاری واجپائی نے خاص طور پر لاہور آکر تقسیمِ ہند کے ساتھ پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے لاہور امن معاہدہ کیا تو بھی جموں و کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ تسلیم کیا مگر ایک طرف مل کر آگے بڑھنے اور دوطرفہ تجارت بڑھانے کی باتیں ہوتی رہیں تو ساتھ ہی بی جے پی کی ہندوتوا پر یقین رکھنے والی حکومت نے مقبوضہ وادی کو پنجہ استبداد میں رکھنے کے لئے قتل و گرفتاریوں جیسی سفاکانہ کارروائیاں جاری رکھیں جس پر وادی کے طول و عرض میں غم و غصے نے ایسے غیض و غضب کی شکل اختیار کرلی جو کارگل لڑائی کی وجہ بنا مگر عالمی طاقتوں نے یہ کہہ کر دوبارہ امن قائم کرا دیا کہ مناسب وقت پر دونوں ممالک کی رضامندی سے کشمیر کا حل نکالا جائے گا لیکن حل کے بجائے مسئلہ کشمیر آج بھی برقرار ہے جس کی حساسیت میں ایک اور اضافہ یہ ہوگیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ملک اب جوہری طاقت بن چکے ہیں، اگر مسئلہ کشمیر حل طلب نہ ہوتا تو شاید جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہی نہ ہوتی، عالمی طاقتوں کی طرف داری اور جانب داری کا نتیجہ ہے کہ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر پر تسلیم شدہ قراردادوں کے باوجود مقبوضہ وادی کو یکطرفہ طور پر ضم کرلیا ہے، یہ فیصلہ عالمی برادری کا منہ چڑانے کے مترادف ہے، نئی حلقہ بندی قبضے کو مستقل کرنے کی طرف مزید ایک اور ٹھوس قدم ہے، عالمی طاقتیں تو اپنے مفادات کی بنا پر بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں مگر مسئلہ کے ایک اہم فریق کے طور پر پاکستان کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہونا چاہئے۔

مطلقہ خبریں