Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

افغان پالیسی کی چار دہائیاں۔۔ کیا کھویا کیا پایا؟

ڈاکٹر رشید احمد خاں
کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ بات چیت پر پارلیمنٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے حالیہ اجلاس کے اختتام پر جاری کئے جانے والے اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان کی وساطت سے گزشتہ سال اکتوبر سے کابل میں شروع ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ کمیٹی میں موجود پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں نے اس پر اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ یہ مذاکرات کب تک جاری رہیں گے اور کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں یا نہیں، ایک سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ چار دہائیوں پر محیط عرصے کے دوران افغان مسئلے سے کسی نہ کسی طرح مگر مسلسل الجھے رہنے کے پیچھے پاکستان کا کیا اسٹرٹیجک مقصد تھا؟ اور ہزاروں افراد کی قربانی دے کر 30 لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو مہاجرین کے نام پر مستقل مہمان بنا کر رکھنے اور ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو پورے ملک میں پھیلنے کی اجازت دے کر کیا وہ مقصد حاصل کرلیا گیا ہے؟ اور اگر وہ مقصد حاصل نہیں ہوا تو اس ناکامی، جسے ایک بڑی تباہی کہنا چاہئے، کا کون ذمہ دار ہے؟ اور ذمہ داروں کی نشاندہی کرکے ان کا احتساب نہیں ہونا چاہئے؟ کیونکہ پاکستان کو سکیورٹی، معیشت اور خارجہ تعلقات میں اس وقت جو چیلنجز درپیش ہیں ان سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح گزشتہ چالیس برسوں سے ہماری افغان پالیسی سے ہے۔
جدید ریاست، جو موجودہ عالمی نظام کی بنیادی اکائی ہے، ایک علاقائی ریاست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرحدوں کا تعین، ان کی حفاظت ریاست کی بقا کا اہم اصول ہے۔ افغانستان سے سرحدی جھگڑا ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ پاکستان کے قومی مفاد کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہم افغانستان کے ساتھ 2500 کلومیٹر طویل سرحد کو ایک بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے پر کابل حکومت کی رضامندی حاصل کرتے۔ اس سے پاکستان اور افغانستان، دونوں کو فائدہ ہوتا۔ ہر طرف سے خشکی میں گھرا ہونے اور بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے کے لئے پاکستان پر خصوصی انحصار رکھنے کی وجہ سے افغانستان کو پاکستان کے ساتھ سرحدی تصفیے سے نہ صرف پاکستان بلکہ دُنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تجارت میں سہولت اور بچت ہوتی۔ پاکستان کے لئے ڈیورنڈ لائن پر جھگڑے کا خاتمہ پاک افغان سرحد پر مستقل امن اور گہرے تعاون پر منتج ہوتا۔ اس وقت افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے دہشت گردوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ 500 ملین ڈالر سے زائد لاگت سے سرحدی باڑ لگانے کے باوجود ہم افغانستان سے اپنے علاقوں میں قائم چوکیوں پر حملوں کو روکنے میں ناکام ہیں۔ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ حل کرلیا جاتا تو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے نہ صرف امن کا گہوارا ہوتے بلکہ ترقی میں بھی ملک کے دوسرے حصوں کے برابر ہوتے۔
ہم اس پر اکثر رونا روتے ہیں کہ آج کا پاکستان وہ نہیں جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا یا جیسا قائداعظمؒ چاہتے تھے، لیکن یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ علامہ اقبالؒ نے پاکستان کی صورت میں کیا خواب دیکھا تھا اور قائداعظمؒ کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ بانیانِ پاکستان نے امید ظاہر کی تھی کہ پاکستان کے قیام سے نہ صرف ہندو مسلم تنازع کا ایک تسلی بخش اور مستقل حل نکل آئے گا بلکہ دو آزاد ممالک کے درمیان اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات قائم ہوں گے۔
افغانستان کے ساتھ تنازع کے خاتمے اور نارمل تعلقات کی اہمیت کے بارے میں دو مواقع پر ذکر کی شہادت موجود ہے۔ ایک 1951ء میں جب کوریا میں جنگ چھڑی اور کمیونسٹ روس اور سرمایہ دارانہ نظام کے چیمپئن امریکا کے درمیان سرد جنگ کا فوکس یورپ سے مشرق بعید شفٹ ہوا تو امریکا کو ایشیا میں اپنے حلیف ڈھونڈنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس ضرورت کے تحت امریکا نے پاکستان سے رابطہ کیا اور وزیراعظم لیاقت علی خان سے شمالی کوریا اور چین کے خلاف امریکا کی سرکردگی میں لڑنے والی نام نہاد بین الاقوامی فوج میں شمولیت کے لئے پاکستانی فوج کے ایک دستے کو بھیجنے کی درخواست کی اور اس کے بدلے پاکستان کی ایک ڈویژن فوج کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کرنے کی پیشکش کی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ہامی بھر لی مگر اس شرط پر کہ امریکا اقوامِ متحدہ اور اس کے باہر اپنے اثرورسوخ کو کام میں لا کر پاکستان کو درپیش دو بڑے مسائل، ایک کشمیر اور دوسرا افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ، حل کروا دے۔ امریکی خارجہ تعلقات پر ڈی کلاسیفائی ہونے والی دستاویزات کے مطابق امریکا کے اس وقت کے وزیرخارجہ آمادہ نہ ہوئے اور جواب میں کہا کہ یہ پاکستان کے اپنے مسائل ہیں اور انہیں حل کرنے کے لئے پاکستان کو خود کوشش کرنی چاہئے، امریکا ان میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ اس پر وزیراعظم لیاقت علی خان کا بھی جواب تھا کہ پاکستان بلاوجہ کسی دوسرے کی جنگ میں نہیں کود سکتا۔ ڈیورنڈ لائن کے قضیے کے خاتمے اور افغانستان کے ساتھ قریبی اور برادرانہ تعلقات کے امکانات اور مواقع پر بات کرنے والے دوسرے پاکستانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ موت کی کال کوٹھڑی میں لکھی جانے والی کتاب اف آئی ایم اساسیناٹڈ میں لکھتے ہیں کہ اگر جولائی 1977ء میں ان کی حکومت کا تختہ نہ الٹا جاتا تو افغانستان کے ساتھ نہ صرف ڈیورنڈ لائن کا تنازع حل ہوجاتا بلکہ ایران، پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ڈھیلی ڈھالی یونین (کونفیدراشن) بھی قائم ہوجاتی کیونکہ انہوں نے نہ صرف گلبدین حکمت یار اور دیگر افغان منحرفین کو مدد فراہم کر کے سردار داؤد کی پاکستان دشمنی اور پختونستان کے پروپیگنڈے پر مبنی مہم کو کمزور کردیا تھا بلکہ ایران کے ذریعے سردار داؤد کو روس سے دور کرنے میں کافی کامیابی بھی حاصل کرلی تھی۔ شاہِ ایران کی ان کوششوں میں سعودی عرب بھی شامل تھا اور امریکا بھی اس کا حامی تھا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مطابق شاہِ ایران اور سعودی عرب نے افغانستان میں ترقی اور تعمیر کے لئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی پیشکش کرکے سردار داؤد کو افغانستان کی روایتی روس نواز پالیسی ترک کر کے مغربی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے قریب ہونے پر راضی کیا تھا۔ جنابِ بھٹو کے مطابق تینوں ملکوں کی ایک کنفیڈریشن کے قیام کے لئے بات چیت کافی آگے بڑھ چکی تھی، لیکن 5 جولائی 1977ء کو ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر اس عظیم منصوبے کی کامیابی کے امکانات کو بھی ختم کردیا تھا۔1979ء کی سوویت لشکر کشی کے بعد افغان مسئلے سے پاکستان کی وابستگی کی ایک ایسی داستان کا آغاز ہوا جس کی تفصیل سے سارا جہاں آگاہ ہے، لیکن مجال ہے کہ ایک دہائی پر محیط اس دور کے دوران ضیا حکومت نے موقع سے فائدہ اٹھا کر پاک افغان سرحدی مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کی کوئی ہلکی سی بھی کوشش کی ہو۔ اس کے برعکس ڈیورنڈ لائن کو عام افغان باشندوں اور مجاہدین کی بلاروک ٹوک آمدورفت کے لئے اس طرح کھول دیا گیا کہ عملی طور پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بین الاقوامی سرحد نہ رہی۔ افغانستان سے روسیوں کے نکل جانے کے بعد صورتِ حال اور بھی خراب ہوگئی تاآنکہ مشرف کے دور میں مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بارڈر کنٹرول کے کچھ اقدامات کیے گئے، مگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان بلاروک ٹوک آنے اور جانے کی روایت اتنی راسخ ہوچکی ہے کہ کثیر رقم خرچ کر کے باڑ کھڑی کرنے سے بھی آمدورفت نہیں رک سکی۔ طالبان کی موجودہ حکومت، جسے اقتدار میں لانے کا الزام پاکستان پر عائد ہوتا ہے، نے نہ صرف ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے بلکہ پاکستان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ سرحد پر باڑ لگانے سے باز رہے، ورنہ سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ آدمی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ان چالیس برسوں میں پاکستان کی افغان پالیسی کا کیا مقصد تھا؟
افغانستان میں روس (سوویت یونین) کی فوجوں کے داخلے کے وقت امریکا میں جمی کارٹر برسرِاقتدار تھے۔ انہوں نے روس کے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ اگر روس نے افغانستان کی سرحدوں سے نکل کر خلیج فارس یا بحرِ ہند کی طرف پیش قدمی کی تو امریکا پوری قوت سے اس کی مزاحمت کرے گا۔ صدر کارٹر کے اس بیان کو ”کارٹر ڈاکٹرائن“ کہا جاتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد خلیج فارس اور بحرِ ہند میں ممکنہ سوویت پیش قدمی کے خلاف اپنے مفادات کا دفاع تھا۔ پاکستان ضیا الحق کی حکومت کی وجہ سے صدر کارٹر کی توجہ کا مرکز نہیں تھا، تاہم افغانستان کے ساتھ بہت لمبی سرحد، جس کا ایک حصہ بحر ہند کے ساتھ ساحل رکھنے والے صوبہ بلوچستان سے بھی ملتا تھا، کی وجہ سے صدر جمی کارٹر نے پاکستان کو اپنا دفاع مضبوط بنانے کے لئے 200 ملین ڈالر کی پیشکش کی جسے ضیا الحق نے کہہ کر مسترد کردیا۔ اس کے ساتھ ضیا الحق امریکا اور مغربی دنیا کی اسٹرٹیجک کمیونٹی کو کسی طرح یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ افغانستان میں روسی افواج اور بحرِ ہند کے درمیان صرف پاکستان کھڑا ہے۔ جمی کارٹر کے جانشین ریپبلکن پارٹی کے نمائندے، امریکا کے نئے صدر رونلڈ ریگن نے اس سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہوئے پاکستان کو افغانستان میں روسی فوج کے خلاف مزاحمت میں ”فرنٹ لائن“ اسٹیٹ قرار دیا۔ اس کے ساتھ سعودی عرب سے مل کر پاکستان اور اس کے ذریعے روسی فوجوں کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کے لئے اربوں ڈالر مالیت کے ایک طویل المیعاد پروگرام کا اعلان کردیا گیا، مگر جلد ہی معلوم ہوگیا کہ پاکستان اور امریکا ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد اسٹرٹیجک مقاصد کے لئے کام کررہے ہیں۔ امریکا روس کو افغانستان کی جنگ میں الجھا کر ویتنام میں اپنی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا اور ضیا الحق امریکی امداد کے ذریعے اپنی کرسی مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکی اقتصادی پابندیوں سے استثنا حاصل کرکے پروگرام کو جاری رکھنا چاہتے تھے، مگر سب سے اہم اور ایک بالکل نئے اور غیرمتوقع عنصر کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے امریکا کو روس کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور اس میں پاکستان کے کردار کا ایک قریبی اور تنقیدی جائزہ لینے پر مجبور کردیا۔
یہ عنصر تھا مذہب کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ جس میں تشویش کا اظہار سب سے پہلے امریکا کے ایک سابق صدر رچرڈ نکسن نے فارن افیئرز مجلّے میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی پر آمادگی کا اظہار کیا تو امریکا نے اپریل 1988ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیئے، حالانکہ جنیوا میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والا معاہدہ کسی بھی لحاظ سے مکمل اور تسلی بخش نہیں تھا۔ ان مذاکرات میں افغان مجاہدین شامل نہیں تھے، اس لئے اس معاہدے پر عملدرآمد کی ذمہ داری سے آزاد تھے۔ روس اور امریکا کی حیثیت ضمانت کنندگان کی تھی، لیکن معاہدے کی دو اہم شقوں یعنی لاکھوں افغان مجاہدین کی واپسی اور ہمسایہ ممالک کی طرف سے اسلحہ کی فراہمی پر پابندی پر کبھی عمل درآمد نہ ہوا۔ موخرالذکر شق کی خلاف ورزی کی براہ راست ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی تھی کیونکہ اس نے پاکستان کے ذریعے صدر نجیب اللہ خان کی حکومت کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کو اسلحہ اور گولہ بارود کی سپلائی جاری رکھی، تاہم امریکا افغانستان سے ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اس نے اب افغانستان کو پاکستان اور سعودی عرب کے حوالے کردیا۔ روسی فوجوں کی شکست و پسپائی سے اس کا مقصد پورا ہوچکا تھا۔
امریکا کے نکل جانے سے بین الاقوامی برادری کی دلچسپی بھی افغان مسئلے میں کم ہوگئی اور وہ افغان مہاجرین، جو مغربی اور اسلامی دنیا سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انتہائی فیاضانہ امداد پر نہ صرف خود آسودہ ترین زندگی بسر کرتے تھے بلکہ امداد تقسیم کرنے والی سیاسی جماعتوں کو بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع فراہم کرتے تھے، اب اپنے تمام اخراجات کے لئے حکومتِ پاکستان یا اقوام متحدہ کی محدود امداد کے محتاج ہوگئے۔ جنیوا معاہدے پر دستخط سے جس شخص کو سب سے زیادہ مایوسی ہوئی وہ پاکستان کے صدر ضیا الحق تھے کیونکہ افغان جہادکی کامیابی کی صورت میں انہوں نے اور ان کی اتحادی مذہبی جماعتوں نے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، وہ روسی فوجوں کی واپسی اور افغانستان کی آزادی و خودمختاری کی بحالی سے کہیں بڑھ کر تھیں، مگر بدقسمتی یہ تھی کہ ان کے علاوہ دنیا اور پاکستان میں کوئی بھی یہ خواب شیئر نہیں کرتا تھا۔ پاکستانی پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ضیا الحق نے جنیوا معاہدے پر دستخط کی اطلاع پر بے ساختہ کہا تھا ”کوئلوں کی دلالی میں ہمارا منہ کالا ہوگیا ہے“۔ کہا جاتا ہے کہ مئی 1988ء میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کو عہدے سے برطرف کرنے کی دیگر وجوہات میں جونیجو حکومت کی طرف سے جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کا ”جرم“ بھی شامل تھا۔
یہی انجام مشرف دور میں پاکستان کی افغان پالیسی کو دیکھنا پڑا۔ خفیہ ادارے کے ایک سابق ڈی جی کے یوٹیوب پر نشر ہونے والے ایک بیان کے مطابق ملا عمر کی قیادت میں افغان طالبان نے افغان گروپس کو کچلنے میں جو کامیابیاں حاصل کی تھیں، ان میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ افغانستان اور افغان عوام کے بارے میں دنیا بھر میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے، مگر ایک حقیقت کا ذکر کم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ سب افغانوں میں افغانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ سب اپنے آپ کو افغان کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنے اندرونی معاملات میں خواہ ان کا تعلق جنگ سے ہو یا امن سے، بیرونی مداخلت کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتے۔ پاکستان کی غیرمستقل پالیسی سے افغانستان خصوصاً شہری علاقوں اور پڑھے لکھے لوگوں میں عام تاثر یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں پاکستان نے افغانستان کی مشکلات سے فائدہ اٹھا کر اپنے قومی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سب سے اہم اور نمایاں افغانستان میں بھارت کے اثرورسوخ کا خاتمہ رہا ہے مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ تیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کا مسلسل بوجھ اٹھانے، افغانستان میں جنگ، خانہ جنگی اور بیرونی افواج کے حملوں سے پیدا ہونے والی مشکلات، جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد بھی پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں، اگرچہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان کی طرف سے طالبان حکومت کے ساتھ بین الاقوامی برادری کے تعلقات کے قیام اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی امداد کی مسلسل اپیل کی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں 70 ہزار معصوم شہریوں، فوج اور پولیس کے جوانوں اور افسروں کی شہادت کی ذمہ دار ٹی ٹی پی کو اب بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں سے طالبان نہیں روک سکتے۔
جہاں تک افغانستان میں پاکستان کے سب سے اہم اسٹرٹیجک مقصد یعنی بھارت کے اثرورسوخ کی بیخ کنی کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ گلبدین حکمت یار کے ایک حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت کے باوجود افغانستان پاکستان سے دور اور بھارت کے نزدیک جا رہا ہے۔ افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ گزشتہ ماہ کے اوائل میں بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ایک سینئر افسر نے وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس ملاقات کے بعد افغان وزیرخارجہ نے ایک باقاعدہ بیان میں بھارت کے ساتھ تعلقات میں مزید فروغ کے امکانات کی امید اور خواہش کا اظہار کیا تھا۔

مطلقہ خبریں