Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بھارت: شمال مشرقی منی پور میں تشدد کی لہر

منی پور میں پچھلے ایک ماہ کے دوران تقریباً 150 کے قریب افراد تشدد آمیز واقعات میں ہلاک ہوگئے ہیں
افتخار گیلانی
بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں پچھلے ایک ماہ کے دوران تقریباً 150 کے قریب افراد تشدد آمیز واقعات میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔ فوج اور نیم فوجی تنظیموں پر بھی حملوں کی متواتر خبریں موصول ہورہی ہیں۔ نظم و نسق کی صورتِ حال اتنی ابتر ہوچکی ہے کہ پولیس تھانوں اور نیم فوجی تنظیموں کے اسلحہ خانوں سے 4,500 کے قریب بھاری اسلحہ سمیت ہتھیار لوٹ لئے گئے ہیں۔ غالباً 1993ء میں پہلی بار مجھے اس صوبہ میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان دنوں صوبہ میں بدترین ہندو مسلم فسادات رونما ہو ئے تھے، جن میں تقریباً سو کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ دہلی سے آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی اور پھر وہاں سے پورے دن کی مسافت کے بعد منی پور کے دارالحکومت امپھال کا سفر تھکا دینے والا، مگر نظاروں سے بھرپور تھا۔ ان دنوں تنازع وادی امپھال میں رہنے والے میتی قبیلوں کے ہی دو گروپوں کے درمیان تھا۔ میتی قبیلہ کا ایک گروپ جن کو مقامی طور پر پانگل کہتے ہیں، مسلمان ہیں جبکہ میتی قبیلہ کی اکثریت ہندو مت سے تعلق رکھتی ہے۔ وادی سے نکلتے ہی پہاڑو ں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوتا ہے، جہاں کوکی اور ناگا قبائلی آباد ہیں، ان میں اکثریت عیسائیوں کی ہے۔ خوبصورت نظاروں، پانی کی فراوانی، ہریالی کی وجہ سے یہ خطہ کشمیر کا عکس لگتا ہے۔ ہر قدم پر ڈھلوانوں پر چائے کے وسیع و عریض باغات نظر آتے ہیں۔ اس خطے میں سات ریاستیں ہیں، جن میں منی پور، تری پورہ، آسام، میزورام، اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور میگھالیہ شامل ہیں۔ میگھالیہ کے ہی ایک گاؤں ماوسن رام میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ جس پہاڑی پر یہ گاؤں واقع ہے اس کے دوسری طرف ایشیا کا سب سے صاف و شفاف ترین گاؤں ماولن اونگ ہے اور اسی کے متصل بنگلہ دیش کی سرحد کو چھوتا ہوا صاف ترین دریادوکی یا اومن گوٹ ہے۔ اس میں اگر چنے یا خشخاش کا دانہ ڈالا جائے تو تہہ تک جاتے ہوئے صاف نظر آتا ہے۔ اس میں کشتی میں بیٹھ کر سیر کرنے کا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ نادانی میں ان صوبوں کو کچھ لوگ سات بہنیں کہتے ہیں۔ مقامی افراد اس کا خاصا بُرا مناتے ہیں، کیونکہ ان کے درمیان یکسانیت یا مشترکہ کوئی چیز نہیں ہے۔ اس علاقے میں تقریباً 230 کے قریب مختلف قبائل الگ الگ انفرادیت لئے آباد ہیں، بسااوقات ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار رہتے ہیں۔ ان سات صوبوں میں میگھالیہ میں 74 فیصد، ناگالینڈ میں 87.93 فیصد، میزورام میں 87.16 فیصد عیسائی آبادی ہے۔ اروناچل پردیش میں بھی 30 فیصد اور منی پور میں 40 فیصد آبادی عیسائی ہے۔ صرف تری پورہ اور آسام ہی ہندو اکثریتی علاقے ہیں۔ اس خطے کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ بھارت میں سب سے زیادہ انگریزی بولنے اور سمجھنے والے اسی خطے میں آباد ہیں۔ ناگالینڈ کی 32 فیصد اور منی پور کی 31 فیصد آبادی ایسی ہے جو مردم شماری میں انگریزی کا بطور پہلی یا دوسری زبان کے اندراج کرواتے ہیں۔ اس خطے کے ساتھ میرا یہ تعلق بھی رہا کہ دہلی میں کشمیر ٹائمز کے بیورو میں کام کرنے کی وجہ سے چونکہ وزارت داخلہ کو کور کرنا پڑتا تھا، اکثر اوقات سیکریٹری داخلہ یا دیگر افسران کشمیر اور شمال مشرق پر ایک ساتھ ہی بریفنگ دیتے تھے اس وجہ سے اس خطے کے ساتھ غیرمحسوس طریقے سے وابستہ ہوتا گیا۔ اس کے علاوہ اس دوران آسام ٹربیون کے دہلی کے نمائندے آنجہانی کلیان بروا کے ساتھ ایک تعلق سا بن گیا۔ چونکہ ہم دونوں اپنے اخبارات کے اکیلے نمائندے تھے اس لئے ہم نے پارلیمنٹ اور پھر وزارت داخلہ کو کور کرنے کی ذمہ داری آپس میں بانٹی تھی۔ ایک دن وہ لوک سبھا کی پریس گیلری تو میں راجیہ سبھا کی پریس گیلری میں بیٹھتا تھا۔ دوسرے دن ڈیوٹیاں تبدیل کرتے تھے۔ اس نے جو کچھ کشمیر پر نوٹ کیا ہوتا تھا، وہ مجھے لکھواتا تھا، میں اس کے لئے شمال مشرق کی خبروں کی کھوج کیا کرتا تھا۔ بروا اور پھر شیلانگ ٹائمزکے دہلی کے بیورو چیف سی کے نائک کی بدولت اس علاقہ کے دورے کرنے کے کئی مواقع ملے۔ عیسائی آبادی ہونے کے باوجود اس خطے کی چار ریاستوں یعنی اروناچل پردیش، تری پورہ، منی پور اور آسام میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار ہے۔ اس خطے میں اس کا ایک الگ ہی چہرہ ہے۔ اس علاقے میں گائے کشی پر پابندی کی حمایت کرتی ہے نہ ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر ووٹ مانگتی ہے۔ اس علاقے میں اس کا انتخابی نعرہ غیرملکیوں یا بنگلہ دیشی دراندازوں کو باہر کرنے کا ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے قبائلی شناخت اور آبادی کے حوالے سے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ چونکہ شمال مشرق میں بنگالی سب سے بڑی نسلی قوم ہے، جو بھارت کے مغربی بنگال سے بنگلہ دیش تک پھیلے ہوئے ہیں، اس لئے ان قبائلیوں کو سب سے زیادہ خطرہ ان سے ہی محسوس ہوتا ہے۔ جس کا بی جے پی خاطرخواہ انتخابی فائدہ اٹھاتی ہے۔ یہ بھی خبریں آتی رہتی ہیں کہ اس کے مقامی لیڈر کئی صوبوں میں عسکری تنظیموں کے ساتھ بھی سانٹھ گانٹھ رکھتے ہیں۔ دراصل اس علاقے میں کانگریس کے ساتھ مقامی لوگوں کو وہی شکایتیں ہیں، جو کشمیر میں ہوتی تھیں۔ اس کا توڑ کرنے کے لئے وہ بی جے پی کو ایک قابل قدر متبادل کے بطور دیکھتی تھیں۔ خیر ذکر منی پور کا ہورہا تھا۔ اس کی سرحدیں میانمار کے دو علاقوں، مشرق میں ساگانگ علاقہ اور جنوب میں چن ریاست سے ملتی ہیں۔ جس طرح کئی دہائی قبل پاکستان اور افغانستان کی سرحد کھلی ہوتی تھی، یہی حال یہاں بھی سرحد کا چند ماہ قبل تک تھا۔ آپ صبح سویرے سر پر جتنا مال اٹھا سکتے ہوں بغیر کسی پاسپورٹ یا پرمٹ کے میانمر میں بیچ کر شام کو واپس آسکتے ہیں۔ کشمیر کی طرح منی پور بھی ہزاروں سالوں سے ایشیائی اقتصادی اور ثقافتی تبادلے کا سنگم رہا ہے۔ جہاں کشمیر وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کی ایک کڑی ہے، منی پور مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا کا سنگم ہے۔ 1947ء تک کشمیر کی طرح ہی منی پور بھی برطانوی عملداری کے تحت ایک آزاد ریاست تھی۔ 11 اگست 1947ء کو، مہاراجہ بدھ چندر نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرکے انڈین یونین میں شمولیت اختیار کی۔ اس علاقہ میں تنازع کا آغاز ستمبر 1949ء کو ہوا جب مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ انضمام کے ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ بتایا گیا مقامی قبائلی زعما سے صلاح و مشورہ کئے بغیر ہی انضمام کیا گیا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مہاراجہ سے انضمام کے کاغذ پر زبردستی دستخط لئے گئے۔ وادی میں رہنے والے اکثریتی میتی قبیلہ کی زیادہ تعداد آزاد ریاست کی خواہاں ہے جبکہ پہاڑوں میں کوکی قبیلہ منی پور کو تقسیم کرکے اپنا ایک الگ علاقہ چاہتے ہیں۔ جیسا کہ جموں و کشمیر میں بدھ اکثریتی لیہہ کا مطالبہ تھا۔

ان ہی پہاڑوں میں ناگا قبیلہ اس علاقہ کا انضمام پاس کے صوبہ ناگالینڈ سے کرکے وسیع ناگالینڈ بنانے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ اسمبلی میں فی الوقت 60 سیٹیں ہیں، جن میں 40 پر میتی قبیلہ کی اکثریت ہے جبکہ بقیہ دس، دس سیٹیں بالترتیب کوکی اور ناگا کے حصہ میں آتی ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی تقریباً 8 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ وہ میتی زبان ہی بولتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت 17 ویں صدی میں مغل شہزادے شاہ شجاع کے ساتھ وارد ہوئی تھی۔ شہنشاہ اورنگ زیب کے عتاب سے بچنے کے لئے اس کے بھائی شاہ شجاع نے منی پور میں پناہ لی تھی۔ خیر چند تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ مختلف ادوار میں جیسے برما یا میانمار سے اراکان، بنگالی، کاچھر اور پھر خود منی پور میں اسلام قبول کرنے والوں کے درمیان اختلاط سے ایک نئی نسل وجود میں آئی، مگر انہوں نے اپنے آپ کو اکثریتی آباد ی کے ساتھ ضم کرکے ان کی ہی زبان کو اپنایا، جس میں پہلی بار 1993ء میں دراڑ پڑی۔ اس پورے خطے میں 230 قبائلی گروپوں میں سے 43 قبائلیوں کو درج فہرست قبائل کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کوٹا کی سہولت مہیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی زمینوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ منی پور میں یہ سہولت کوکی قبیلہ کو حاصل ہے۔ میتی قبیلہ اس سہولت کی خاطر کئی دہائیوں سے برسرپیکار تھا۔ مئی میں ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ ان کو درج فہرست درجہ دینے کی درخواست پر عمل کیا جائے۔ جس کی کوکی قبیلہ نے بھرپور مخالفت کی، کیونکہ ان کو لگا کہ ایک تو ان کا کوٹا میتی قبیلہ لے جائے گا۔ میتی قبیلہ گو کہ اکثریت میں ہے، مگر وہ صرف 10 فیصد زمین تک محدود ہے۔ غیردرج فہرست قبائلی ہونے کے ناطے وہ پہاڑیوں میں زمین نہیں خرید سکتے۔ اب اس فیصلہ کے بعد وہ ریاست کے بقیہ 90 فیصد علاقے میں پاؤں پسار سکتے تھے۔ کوکی قبیلہ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف 3 مئی کو احتجاج کی کال دی، جس کے ردعمل میں میتی قبیلہ میدان میں آگیا اور نسلی تشدد بھڑک اٹھا۔ جس کی آگ ابھی تک ٹھنڈی ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ فسادات میں ہلاکتوں کے علاوہ 60 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ اس علاقہ میں سینکڑوں عبادت گاہیں جلائی گئی ہیں۔ نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے جان بوجھ کر پہاڑوں کی انتظامیہ کو میدانی علاقوں سے الگ کر کے پہاڑی وادی کی تقسیم متعارف کروائی۔ بعد میں مذہبی تقسیم نے معاملات کو مزید الجھا دیا۔ جہاں میتیوں نے ہندومت کی شاخ وشنومت کو اپنایا جس کی سرپرستی ان کے بادشاہوں نے کی۔ منی پور اور پہاڑی لوگوں کو مشنریوں نے عیسائی بنا دیا۔ ان کو پہاڑی علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس علاقے میں ان گنت عسکری گروپ بھی سرگرم ہیں۔ جن میں ریولوشنری پیپلز فرنٹ (RPF)، منی پور لبریشن فرنٹ آرمی (MLFA)، کنگلی یاول کنبا لوپ (KYKL)، ریولوشنری جوائنٹ کمیٹی (RJC)، Kangleipak، پیپلزیونائیٹڈ لبریشن فرنٹ (PULF)، منی پور ناگا پیپلز فرنٹ (MNPF)، یونائیٹڈ کوکی لبریشن فرنٹ (UKLF)، کوکی نیشنل فرنٹ (KNF)، کوکی نیشنل آرمی (KNA)، کوکی ڈیفنس فورس (KDF)، کوکی ڈیموکریٹک موومنٹ (KDM)، کوکی نیشنل آرگنائزیشن (KNO)، کوکی سیکیورٹی فورس (KSF)، چن کوکی ریولوشنری فرنٹ (CKRF) اور کوم ریم پیپلزکنونشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ بھارت کے موخر تزویراتی تحقیقی ادارہ انسٹیٹوٹ آف ڈیفنس اینالسز میں محقق پشپتا داس کے مطابق جہاں ہائی کورٹ کا فیصلہ فوری تشدد کا محرک بنا، وہیں میتی اکثریت والی ریاستی حکومت کے خلاف کافی عرصے سے کوکی برادری میں غصہ بھڑک رہا تھا۔ منی پور حکومت نے پچھلے کچھ مہینوں میں کچھ ایسے اقدامات اور فیصلے کئے ہیں جس سے کوکی برادری میں امتیازی سلوک اور عدم تحفظ کا احساس پیدا گیا تھا۔ وزیراعلیٰ بیرن سنگھ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ میانمار سے بہت سے غیرقانونی تارکین وطن ریاست میں آباد ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی حکومت نے مبینہ طور پر میانمار کے ساتھ فری رجیم موومنٹ (FMR) کو معطل کر کے میانمار سے 410 ”غیرقانونی تارکین وطن“ کو حراست میں لے لیا۔ مزید برآں، بیرن سنگھ حکومت نے ریزرو جنگلات، محفوظ علاقوں میں رہنے والے مکینوں کو بے دخل کرنے کے لئے نوٹس بھی بھیجے۔ اس دوران دیہاتیوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ کوکی قبیلہ نے تجاوزات کے نام پر اس مہم کو اپنی برادری کے خلاف کارروائی سے تعبیر کیا۔ کوکی قبیلہ میانمار میں رہنے والے چن قبیلہ کا ہم عصر ہے۔ دونوں میں برادری اور رشتہ داریاں قائم ہیں اور صدیوں سے وہ سرحدیں عبور کرکے ایک دوسرے کے علاقو ں میں آتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ منی پور حکومت نے 2017ء میں ریاست میں منشیات کے خلاف مہم بھی شروع کی تھی۔ اکھرول، سیناپتی، کانگپوکپی، کامجونگ، چورا چند پور اور ٹینگنوپال اضلاع کی پہاڑیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ پوست کی بڑے پیمانے پر غیرقانونی کاشت کی جارہی تھی۔ پوست کی ناجائز کاشت کو زبردستی تلف کرنے اور دیہاتیوں کی گرفتاریوں کو، تاہم کوکی برادری اپنی روزی روٹی سے محروم کرنے کی سازش کی طور پر دیکھ رہی تھی۔ ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کوکی مظاہرین کو عسکریت پسند تنظیموں خصوصاً کوکی نیشنل آرمی (KNA) اور زومی ریوولیوشنری آرمی (ZRA) سے مدد مل رہی ہے۔ درحقیقت، حکومت اور عسکریت پسند گروپوں کے درمیان 2016ء سے امن مذاکرات چل رہے تھے اور ایک سیز فائر کے معاہدہ پر عمل ہو رہا تھا۔ 10 مارچ 2023ء کو بیرن سنگھ حکومت نے کوکی عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ سہ فریقی اسسپنشن آف آپریشنزیعنی سیزفائر سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری نے نہ صرف کوکی برادری کو تذبذب میں مبتلا کیا بلکہ کوکی عسکریت پسندی کے مسئلے کے حل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس سیزفائر اور مذاکرات نے کوکی کمیونٹی میں امیدیں پیدا کی تھیں کہ ان کے مطالبات کے بعد ایک علیحدہ کوکی لینڈ کا مطالبہ پورا کیا جائے گا۔ درحقیقت اس امید نے انہیں 2022ء کے منی پور انتخابات کے دوران بی جے پی کی حمایت کرنے پر اکسایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کوکی عسکری گروپوں نے پہاڑی علاقوں میں بی جے پی کو ووٹ دینے کے لئے اپیل کی تھی۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ مرکزی حکومت ایک کوکی لینڈ علاقائی کونسل قبول کرنے پر تیار ہے۔ تاہم ریاستی حکومت جس میں میتی کا غلبہ ہے، کوکی لینڈ علاقائی کونسل کے قیام کے خلاف ہے کیونکہ وہ اسے ایک علیحدہ کوکی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم سمجھتے ہیں۔ منی پور میں ویسے تو امن کی صورتِ حال ہمیشہ ہی خراب رہی ہے مگر وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ نے مکروفریب کا سہارا لے کر ایک ایسا امن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، جو بس اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا۔ حقیقی امن کے لئے کوششیں کرنے کے بجائے، مختلف گروپوں کو الجھا کر وقتی سیاسی فائدے حاصل کرنے کے کام کئے گئے۔ یہ صرف شمال مشرق کا حال نہیں، بلکہ اس حکومت کا رویہ دیگر خطوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ کوئی حل نکالا جاتا، ان کو شمال مشرق سے کانگریس کو بے دخل کرکے حکومتیں بنانے کی جلدی تھی۔ یہ گڑھا اب بیچ چوراہے پر ٹوٹ چکا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ منی پور کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرکے مودی حکومت سیاسی معاملات کا تصفیہ کرنے کی طرف قدم بڑھائے۔

مطلقہ خبریں