Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

جاسوسی سے رسوائی تک۔۔

قطر کی خفیہ ایجنسی قطر اسٹیٹ سیکیورٹی کا کہنا ہے کہ اس نے خفیہ طریقے سے الیکٹرونک رابطے کے کچھ پیغامات پکڑے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انڈین بحریہ کے یہ سابق افسران آبدوزوں کے پروگرام کی جاسوسی کررہے تھے
فاروق اعظم
جنگوں کی تاریخ میں بیسویں صدی کیس اسٹڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا نصف اول دو عالمی جنگوں کی نذر ہوا اور نصف آخر میں دُنیا نے طویل ترین سرد جنگ دیکھی۔ یہ وہ صدی ہے جس میں پاکستان اور بھارت معرض وجود میں آئے۔ دُنیا کی تباہی و بربادی قریب سے دیکھنے اور اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد ضروری تھا کہ دونوں ہمسائے ان عوامل سے خود کو دور رکھتے جو امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا ہمسایہ رکھتا ہے جو پڑوس میں نقب لگانے اور اس کی بیخ کنی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔
تاریخ دیکھ لیجئے دونوں ممالک نے قلیل عرصہ میں تین بڑی جنگیں لڑیں۔ جنگوں میں ایک اہم ”ہتھیار“ جاسوسی بھی ہے۔ اگرچہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو سخت ناپسندیدہ ہے۔ جنگ بذات خود کبھی پسندیدہ عمل نہیں رہا، تاہم جو قوت جنگی جنون میں مبتلا ہو ان کے لئے ہر عمل پسندیدہ ہوتا ہے۔ بھارت کے جنگی جنون سے صرف پاکستان ہی متاثر نہیں ہوا، قرب و جوار کی دیگر ریاستیں بھی اس سے متاثر ہیں۔ حال ہی میں خلیجی ملک قطر کی عدالت نے بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق افسران کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے۔ ذرائع ابلاغ سے دستیاب اطلاعات کے مطابق عدالت سے سزا یافتہ بھارت کے سابق نیوی افسران میں کمانڈر پورنیندو تیواری، کیپٹن نوتیج سنگھ گل، کیپٹن سوربھ وششٹھ، کیپٹن بریندرا کمار ورما، کمانڈر سگناکر پکالا، کمانڈر سنجیو گپتا، کمانڈر امت ناگپال اور سیلر راگیش شامل ہیں۔ یہ دوحہ میں ایک نجی دفاعی سروسز کمپنی کے لئے کام کر رہے تھے، جو قطر کی نیشنل بحریہ فورس کے لئے تربیت، لاجسٹکس اور دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرتی تھی۔ ان افراد کو 30 اگست 2022ء کو قطر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف مقدمے کی سماعت 29 مارچ 2023ء کو شروع ہوئی اور 26 اکتوبر 2023ء کو قطر کی عدالت نے مذکورہ افراد کو موت کی سزا سنائی۔
یہ اپنی نوعیت کا ایک اہم کیس ہے۔ ملزمان کے خلاف ٹرائل بھی خفیہ رکھا گیا اور اس کا فیصلہ بھی عام مشتہر نہیں کیا گیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ قطری عدالت کی جانب سے دیا گیا فیصلہ خفیہ (Confidential) ہے اور اس فیصلے کی کاپی صرف قانونی ماہرین کی ٹیم کے ساتھ شیئر کی گئی ہے۔ اس فیصلے کے مندرجات کو دیکھا جا رہا ہے اور اس ضمن میں عدالت میں ایک اپیل فائل کی گئی ہے۔ بظاہر بھارت اپنے سابق نیوی افسران کے کردار کو جاسوسی کے تناظر میں نہیں دیکھتا، تاہم سزا کی نوعیت سے سزا یافتہ افراد کے کردار اور اس کیس کی حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی بعض رپورٹس کے مطابق بھارتی بحریہ کے ان سابق افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے اطالوی ساختہ جدید ترین آبدوزیں خریدنے سے متعلق قطر کے خفیہ پروگرام کی تفصیلات ایک ملک کو فراہم کی ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت کے سیکیورٹی حکام نے دوحہ میں قطری حکام کو یہ باور کرانے کی ہرممکن کوشش کی کہ بھارت اور اس کے شہری قطر کے خلاف کسی معاندانہ خفیہ جاسوسی مشن میں ملوث نہیں ہیں۔ لیکن قطری حکام اس بات پر مصر ہیں کہ مذکورہ افراد ان کے آبدوز پروگرام کے بارے میں خفیہ معلومات ایک ملک کو ارسال کر رہے تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق قطر کی خفیہ ایجنسی قطر اسٹیٹ سیکیورٹی کا کہنا ہے کہ اس نے خفیہ طریقے سے الیکٹرونک رابطے کے کچھ پیغامات پکڑے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انڈین بحریہ کے یہ سابق افسران آبدوزوں کے پروگرام کی جاسوسی کر رہے تھے۔
قطر میں بھارتی بحریہ کے سابق افسران کا کیس مستقبل میں کیا رُخ اختیار کرے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم بھارت کی جانب سے اس نوعیت کی سرگرمیاں پاکستان کے خلاف ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ چند سال قبل مارچ 2016ء میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے بلوچستان میں بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا۔ بعدازاں اس نے تسلیم کیا کہ وہ بھارتی جاسوس ہے اور بلوچستان و کراچی میں تخریبی کارروائیوں کے لئے منصوبہ بندی کرتا تھا۔ کلبھوشن یادیو کو اپریل 2017ء میں پاکستان کی فوجی عدالت نے دہشت گردی اور جاسوسی کے الزامات کے تحت پھانسی کی سزا سنائی۔ بھارت نے اس کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں اپیل کی۔ جولائی 2019ء میں عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کی رہائی کی اپیل مسترد کردی، تاہم پاکستان کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دینے اور ان کی سزا پر نظرثانی کا پابند بنایا۔ پاکستان نے بھارت کوکلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دی اور نظرثانی کی اپیل کی سہولت بھی دی۔ لیکن بھارت نے اب تک کلبھوشن یادیو کیس کی پیروی کرنے اور ان کے لئے وکیل مقرر کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
یہ محض جاسوسی کا ایک کیس نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ عشروں میں بھارت کے کئی جاسوسوں کو پاکستان میں سزا ہوئی۔ گزشتہ دہائی میں ایک بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ اس وقت خبروں میں نمایاں ہوا، جب 2013ء میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کے ایک حملے میں وہ زخمی ہوا اور جانبر نہ ہوسکا۔ اس کی گرفتاری 1990ء میں عمل میں آئی تھی۔ پاکستان نے سربجیت سنگھ کے خلاف فیصل آباد، ملتان اور لاہور میں بم دھماکوں کے الزامات میں مقدمہ چلایا اور اسے موت کی سزا سنائی۔ اس وقت بھارت کا مؤقف تھا کہ سربجیت سنگھ نشے میں دھت ایک کاشت کار تھا جو کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے غلطی سے سرحد پار کر گیا تھا، تاہم 2013ء میں ان کی موت کے بعد جب ان کی لاش بھارت کے حوالے کی گئی تو ان کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔
اس سے قبل 2008ء میں بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ کو میڈیا میں توجہ ملی تھی۔ وہ 1973ء میں راولپنڈی میں گرفتار ہوا تھا اور جاسوسی کے الزام میں اس کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ پاکستان کی جیلوں میں 35 سال گزارنے کے بعد سابق صدر پرویز مشرف نے اس کی موت کی سزا معاف کرکے اس کو رہائی دی۔ کشمیر سنگھ جب تک پاکستان میں رہا، اس نے جاسوسی کے الزامات کو تسلیم نہیں کیا، تاہم رہائی کے بعد بھارت پہنچتے ہی اس نے اعتراف کرلیا کہ وہ پاکستان جاسوسی کے لئے گیا تھا۔ اسی طرح ایک بھارتی جاسوس سرجیت سنگھ 1982ء میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوا تھا۔ پاکستان کی جیلوں میں 30 سال گزارنے کے بعد 2012ء میں اس کو رہائی ملی۔ واہگہ بارڈر پار کرتے ہی اس نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وہ ”را“ کا ایجنٹ بن کر پاکستان جاسوسی کے لئے گیا تھا۔ 2004ء میں لاہور میں رام راج نامی ایک بھارتی جاسوس پاکستان پہنچتے ہی گرفتار ہوگیا تھا۔ اس کو 6 برس قید کی سزا ہوئی اور جب وہ اپنی سزا کاٹ کر واپس بھارت پہنچا تو اس کو بھارتی اداروں نے پہچاننے سے انکار کردیا۔ وہ پاکستان آنے سے پہلے 18 برس تک بھارت کے خفیہ اداروں میں کام کرچکا تھا۔
ان کے علاوہ بھی بہت سے بھارتی جاسوس تھے جو پاکستان میں مختلف وقتوں میں پکڑے گئے۔ بعض کرداروں کو ان کے جرم کی پاداش میں موت کی سزا بھی سنائی گئی۔ جاسوسی کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے لئے جدید طریقے بھی اپنائے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں متعدد بھارتی جاسوس ڈرون طیاروں کو آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب نشانہ بنایا لیکن اس کے باوجود جنگی جنون میں مبتلا پڑوسی اپنے رویے پر نظرثانی کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کے باوجود ہمیشہ جنگ سے احتراز برتنے کی کوشش کی ہے۔ چند سال قبل فروری 2019ء میں جب بھارتی فضائیہ کا ونگ کمانڈر ابھی نندن طیارہ تباہ ہونے کے باعث آزادکشمیر کی حدود سے پکڑا گیا تو پاکستان نے اس موقع پر کشیدگی کے باوجود ابھی نندن کو رہا کیا۔ لیکن دوسری جانب بھارت کا رویہ ہمیشہ کی طرح منفی رہا۔ بالخصوص 2014ء میں نریندر مودی کی حکومت بننے کے بعد بی جے پی نے تعلقات میں بہتری کے بجائے ہمیشہ ایسے اقدامات کئے جو تشدد اور نفرت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ حال ہی میں بھارت میں کرکٹ ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا، جس میں پاکستانی شائقین اور صحافیوں کو بھارت جانے کے لئے ویزے نہیں دیئے گئے۔ بھارت کو یہ جان لینا چاہئے کہ تشدد اور نفرت کی پالیسی سے اس خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جاسوسی اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے باعث بھارت کو دنیا میں جو ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے، اگر جنگی جنون سے باہر نکلا جائے تو رسوائی کا یہ سفر بھی اختتام کو پہنچ سکتا ہے۔

مطلقہ خبریں