Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

فلسطین اور کشمیر کی مظلوم خواتین

آخر ان مغرب زدہ افراد کو کیوں فلسطین سے کشمیر تک ہونے والے ظلم اور بربریت کی داستانیں نظر نہیں آتی ہیں؟
ڈاکٹر صابر ابو مریم
ہر سال 8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین منایا جاتا ہے جس کا مقصد دُنیا بھر میں خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی پھیلانا ہے۔ دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن گزشتہ کئی برس سے شدت کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک مخصوص طبقہ فکر اور اسٹیٹس کی حامل خواتین سڑکوں پر نکل آتی ہیں اور واہیات قسم کے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر غیراخلاقی نعروں کی مدد سے خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ کیا خواتین کے حقوق میں یہ سب شامل ہے؟ آج پاکستان کا ہر ذی شعور فرد اور بالخصوص خواتین کی اکثریت اس بات کو سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر یہ حقوق نسواں کے نام پر خواتین کی بے حرمتی کس کے اشاروں پر کی جا رہی ہے۔
اگر خواتین کے حقوق سے متعلق بات کی جائے تو ہمیں دُنیا میں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی پامالی مغربی معاشروں میں ہی نظر آتی ہے کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام نے صنف نازک کو سرمایہ داری کا ایک ہتھیار بنا کر استعمال کیا ہے۔ کیا جس طرح کے نعرے آج یوم خواتین کے موقع پر لگائے جاتے ہیں، کیا واقعی ان سب باتوں کا خواتین کے حقوق سے تعلق ہے؟ کیا یہ نعرہ لگانا اور مطالبہ کرنا کہ عورت کو عورت کے ساتھ شادی کرنے کا حق ہونا چاہئے، کسی صورت بھی خواتین کے حقوق سے مطابقت رکھتا ہے یا پھر ان استعماری قوتوں کا ایک آلہ کار ہے کہ جن کے خود کے انسانی معاشرے جانوروں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر مذاہب اور قوموں کے انسانی معاشروں کو جانوروں کے معاشروں سے بھی بدتر بنا دیں۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے بارے میں پاکستان کی نسل نو کو سوچ بچار کرنا ہوگی۔
جہاں تک خواتین کے حقوق کی بات ہے تو ہمارے معاشروں میں خواتین کو تعلیمی سرگرمیوں میں برابر کے حقوق حاصل ہیں، اگر تعلیم کے حقوق سے متعلق تحقیق کی جائے تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ تعلیمی اداروں میں مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد دوگنا ہے۔ کیا ا یسے کسی معاشرے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں؟ آج متعدد ایسی جامعات ہیں کہ جہاں صدور شعبہ خواتین ہیں۔ اسی طرح سرکاری دفاتر ہوں یا پھر روزگار کے دیگر مواقع، تمام مقامات پر خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ اپنے فرائض ادا کررہی ہیں تو پھر یہ کون سی قوم ہے جو سال میں ایک دن 8 مارچ کو سڑکوں پر نکل کر صرف اور صرف اخلاقیات کو پامال کرنے کے نعرے بلند کرتی ہے اور پھر عالمی استعماری ذرائع ابلاغ ان کو اس قدر کوریج فراہم کرتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں ان کا نعرہ گونج رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ استعماری قوتیں اور ان کے ممالک خود اس قسم کی غیراخلاقی انسانی معاشروں کے مسلسل پروان چڑھنے سے پریشان ہیں لیکن اب وہ چاہتے ہیں کہ اس پریشانی کو دنیا بھر کے تمام انسانی معاشروں میں سرائیت کریں اور دنیا میں انسانی معاشرتی نظام کو مفلوج کردیں۔ حالانکہ یہ بات ایک کڑوا سچ ہے کہ جو عناصر 8 مارچ کو یوم خواتین کی مناسبت سے واہیات نعروں کو بلند کرتے ہیں انہیں یہ بات بالکل نظر نہیں آتی ہے کہ دنیا میں اگر سب سے زیادہ کوئی خواتین کے حقوق پامال کررہا ہے تو وہ یہی مغربی استعماری نظام کی حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے آج ان نوزادوں کو حقوق نسوان کا نعرہ تھما کر معاشرتی نظام میں خلل ڈالنے کے لئے سرگرم کر رکھا ہے۔
امریکا میں انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کی پامالی کی داستان بیان کی جائے تو نہ ختم ہونے والی داستانیں وجود رکھتی ہیں۔ اسی طرح یورپی ممالک میں خواتین کے حقوق کو جس قدر پامال کیا جاتا ہے شاید ہی کسی اور معاشروں میں ایسا دکھائی دے۔ فلسطینی خواتین دنیا کی سب سے مظلوم ترین خواتین ہیں کہ جن کے سامنے ان کے بچوں کو قتل کیا جاتا ہے، ان کے پیاروں کو قیدوبند کیا جاتا ہے، خود خواتین کو بلا کسی وجہ کے گرفتار کر کے جنسی ہراساں کیا جاتا ہے اور یہ سب کے سب کام امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔ فلسطینی خواتین کے حقوق کی پامالی کی داستان 70 سال سے جاری ہے لیکن آج تک کسی بھی 8 مارچ کے مظاہروں اور ریلیوں میں ان نام نہاد سول سوسائٹی کی خواتین نے ایک بھی پلے کارڈ فلسطین کی خواتین کے حقوق کے لئے بلند نہیں کیا۔
مقبوضہ کشمیر کی حالت دیکھ لیجئے جہاں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ فلسطین کی طرح یہاں بھی 70 سالہ تاریخ ہے۔ خواتین کی عصمت دری کی درجنوں داستانیں موجود ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھی خواتین کو قید کرکے جنسی ہراساں کیا جاتا ہے۔ ماؤں کے سامنے ان کے پیاروں کو قتل کیا جاتا ہے، بیویوں کے سامنے ان کے شوہروں کو گرفتار اور قتل کردیا جاتا ہے۔ معصوم بچیوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سفاکیت کی کون کون سی داستان یہاں بیان کی جائے؟ یہ سب کچھ بھارت کی حکومت کے زیراثر اور اس کے حکم پر کیا جا رہا ہے۔ لیکن کبھی بھی 8 مارچ کو پاکستان کی ان نام نہاد سول سوسائٹی خواتین نے مقبوضہ کشمیر کی ان بے سہارا خواتین کے حقوق کے لئے ایک بھی نعرہ تو دور کی بات ہے ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔
بطور مرد میں بھی خواتین کے حقوق کا حامی ہوں، چاہتا ہوں خواتین کا احترام ہو، عزت ہو، ان کا جو مقام ہے انہیں وہ دیا جائے لیکن کیا عورت کا مقام صرف اور صرف یہی ہے کہ جو 8 مارچ کی ریلیوں میں بیان ہورہا ہے۔ آخر ان مغرب زدہ افراد کو کیوں فلسطین سے کشمیر تک ہونے والے ظلم اور بربریت کی داستانیں نظر نہیں آتی ہیں؟ آخر کیوں آج فلسطینی عورت اسرائیل کی قید میں ہے؟ آخر کشمیر کی خواتین کا کیا قصور ہے؟ ان کے حق کے لئے کوئی کیوں پلے کارڈ اور نعرے لگاتا ہوا 8 مارچ کو سڑکوں پر نہیں نکلا؟
کشمیر میڈیا سروس کے تحقیقاتی شعبے کی جانب سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی رپورٹ انکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کا نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک تقریباً ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے، بھارتی فوج نے لاکھوں کی تعداد میں کشمیری قید کئے اور اب تک 23 ہزار سے زائد خواتین بیوہ اور ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 11 ہزار 236 خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی آبروریزی اور شوپیاں میں بے حرمتی کے بعد قتل کی جانے والی 17 سالہ آسیہ جان اور اس کی بھابی نیلوفر جان بھی شامل تھیں۔ لیکن اس بارے میں آپ کو 8 مارچ کو نکالی جانے والی نام نہاد حقوق نسواں ریلیوں میں کوئی آواز بلند ہوتی سنائی نہیں دی ہوگی۔ فروری 2023ء میں جموں وکشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مقبوضہ فلسطین میں اسیران کلب کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاستی دہشت گردی میں فلسطینیوں کے ساتھ بغیر کسی تخصیص کے مظالم جاری ہیں، صیہونی فوجیوں نے جہاں ہزاروں فلسطینی باشندوں کو شہید کیا ہے ان میں بچوں سمیت خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہیں جبکہ فلسطینی خواتین کی بڑی تعداد ہے جو صیہونی زندانوں میں اپنی زندگیوں کے قیمتی سال گزار رہی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کی مختلف جیلوں میں اس وقت 45 خواتین پابند سلاسل ہیں جن میں سماجی، سیاسی اور انسانی کارکنان سمیت معلمات، خواتین صحافیوں سمیت طالبات بھی شامل ہیں جبکہ ان 35 خواتین میں 26 ایسی ہیں جو صیہونی ریاست کی انتظامی حراست کی غیرقانونی پالیسی کے تحت بغیر کسی جرم کے قید ہیں۔ قابض صیہونی ریاست نے 1967ء سے اب تک کم سے کم 16 ہزار سے زائد خواتین کو گرفتار کرکے صیہونی عقوبت خانوں میں قید کیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے معاشروں کے کردار سازی کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ خواتین کبھی ماں تو کبھی بہن اور کبھی بیٹی اور کبھی بیوی جیسے مقدس رشتوں کی صورت میں اپنا فرض نبھاتی رہی ہیں۔ جہاد کا مقام ہو تو بھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر جناب سیدہ فاطمہ زہرا میدان میں زخمیوں کی مدد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح دورحاضر کی دنیا میں فلسطین میں لیلیٰ خالد جیسی خواتین موجود ہیں، کشمیر میں آسیہ اندرابی ہیں، عراق میں ہمیں خواتین کے اصل حقوق کی جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہونے والی آمنہ بنت الہدیٰ ملتی ہیں، اسی طرح امریکن لڑکی راشیل کوری نے فلسطینیوں کی خاطر اپنی جان قربان کردی۔ تاریخ ایسی شرافت زادیوں اور بہادر خواتین سے بھری پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں آج انہی کا مقام اور نام باقی ہے۔ ہماری خواتین کو اپنے حقوق اور معاملات کے لئے ایسی ہی خواتین کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا میں اگر سب سے زیادہ کوئی مظلوم خواتین کو دیکھنا چاہتا ہے تو فلسطین اور کشمیر کی خواتین سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں ہے۔

مطلقہ خبریں