Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

برطانیہ میں مہنگائی کیخلاف عوامی ردعمل

شیراز خان، لندن
دوہزار آٹھ ء میں دُنیا بھر کی فنانشل منڈیوں پر اس وقت بم شل گرا دئیے گئے جب امریکا میں بینک کرپٹسی کی وجہ لمین بردارز بینک اچانک بند ہوگئے، امریکا، برطانیہ اور یورپ کی مضبوط معیشتوں کے غبارے پھٹ گئے جسے کریڈٹ کرنچ یا کساد بازاری کا نام دیا گیا، مکانوں کی قیمتیں گر گئیں، بینکوں نے قرضے دینے بند کردیئے، کاروبار ٹھپ اور بے روزگاری عام ہوگئی، رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو تالے لگ گئے، میں لندن میں ہی تھا جبکہ بڑے بھائی دبئی شارجہ میں اپنے دو تین بزنس کررہے تھے، میرا وہاں اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا، دبئی میں امریکا، یورپ اور دیگر ممالک کے کاروباری لوگ بینکوں سے قرضے لے کر کاروبار کررہے تھے، قرضے آسانی سے بینک دے دیا کرتے تھے، کریڈٹ کرنچ کے بعد دبئی ایئرپورٹ پر یہ سارے غیرملکی اپنی گاڑیاں چھوڑ کر اپنے اپنے ملکوں میں فرار ہوگئے، ہم جو برطانیہ، یورپ یا امریکا میں رہتے ہیں ہمارے بارے میں پاکستان میں ہمارے اہل خانہ یا اہل وطنوں کی یہ رائے عام ہے کہ ہم امیر کبیر اور آسودہ حال ہیں، ہمارے کوئی مسائل یا مشکلات نہیں ہیں، اللہ بخشے میری ماں جی پاکستان میں حیات تھیں، ہر روز صبح بات ہوتی رہتی تھی، اگر میں لیٹ ہوجاتا تو ماں جی فون کر دیتی تھیں، کریڈٹ کرنچ کے بعد انہوں نے حسب معمول ایک دن فون کیا پوچھنے لگیں بیٹا کیا حال ہے، میں نے اپنا کریڈٹ کرنچ مہنگائی، کاروبار ٹھپ، بے روزگاری کا دکھڑا سنانا شروع کردیا، ماں جی کافی دیر سنتی رہیں، میرے خاموش ہونے کے بعد بول پڑیں بیٹا بیوائیں بھی روتی ہیں اور سہاگناں بھی۔ (رنڈیاں وی روندیاں تے سہاگناں وی) تم انگلینڈ میں رہتے ہو اور مہنگائی بے روزگاری کا رونا روتے ہو تو ہم پاکستان والے اپنے حالات کے بارے میں کیا کہیں۔ چونکہ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ باہر کی دُنیا میں رہنے والے اسودہ ہیں، وہاں کوئی مسئلے مسائل نہیں، پاکستان میں جو مہنگائی کا موجودہ طوفان آیا ہوا ہے وہ تو ناقابل برداشت ہے لیکن اِدھر برطانیہ میں جو کوئی 20 لاکھ پاکستانی تقریباً رہ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہاں مہنگائی نے تباہی مچائی ہوئی ہے، اس سے سب کتنے پریشان ہیں، گزشتہ ہفتے برطانیہ کے تیس شہروں میں لندن سمیت ہزاروں افراد نے مہنگائی کے خلاف مظاہرے کئے ہیں اور ہفتہ 5 مارچ سے پیپلز اسمبلی نے بڑے پیمانے پر ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، چونکہ گیس اور بجلی کے نرخوں میں 54 فیصد اضافہ ہوا ہے جو سالانہ تقریباً سات سو پونڈز بنتے ہیں، پیٹرول اور دیگر اشیائے خوردونوش کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، برطانیہ میں مہنگائی تیس سالوں میں سب سے زیادہ بڑھی ہے، بعض اشیاء میں 7.5 فیصد اور بعض میں 5.4 فیصد اضافہ ہوا ہے، پیپر کی مصنوعات میں 50 فیصد، پلاسٹک میں 40 فیصد، آٹا 40 فیصد، چاول 15 فیصد، سافٹ ڈرنکس 20 فیصد، ویجیٹیبل آئل 45 فیصد جبکہ دالیں 25 فیصد مہنگی ہوئی ہیں۔ سبزیاں، پھل اور گاڑیوں کی قیمتوں میں تقریباً 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ فی کس آدمی کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا، ایک عام ڈیلی ویچیز پر کام کرنے والا شخص تقریباً 1200 پونڈز ماہانہ تنخواہ تمام تر ٹیکس ادا کرے کے بعد کما رہا ہے، اس میں اس کو سارے بل ادا کرنے پڑتے ہیں جبکہ لوکل گورنمنٹ کا ٹیکس تقریباً ڈیڑھ سو پونڈز فی گھر ہے، اسی لئے عوام سڑکوں پر آگئے ہیں، اب اپریل سے ٹیکسوں اور نیشنل انشورنس میں اضافہ کیا جارہا ہے، گاڑیوں کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، یورپ اور امریکا میں بھی یہی حال ہے۔ ماہر معاشیات یہ پیشن گوئیاں کررہے ہیں کہ اگر کرونا کی کوئی اور لہر نہ آئی اور یوکرائن کے مسئلے پر روس اور یورپ میں کوئی جنگ نہ ہوئی تو برطانیہ، امریکا اور یورپ کی معیشت کو واپس اسی جگہ آنے کے لئے کوئی آٹھ سال لگ سکتے ہیں۔ جہاں پر عالمی معیشت کرونا سے پہلے مارچ 2020ء میں تھی، کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسلسل دو سالوں میں عالمی معیشت اس قدر تباہ ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ عالمی معیشت اور مہنگائی کے اثرات پاکستان پر بھی بُری طرح پڑے ہیں اور
پاکستان میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے اسے ماننے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے، پاکستان میں مہنگائی کی چند موٹی موٹی وجوہات بیان کردیتا ہوں
غیرترقیاتی اخراجات، حکومت کو لازمی اٹھانے ہوتے ہیں جس میں تنخواہیں، پنشن، مراعات اور ہنگامی صورتِ حال میں جیسے قدرتی آفات۔
قرضوں کی قسطیں اور قرضوں کا سود جو حکومت ادا کرتی ہے۔
دفاعی اخراجات جو زیادہ ضروری ہیں۔
کرونا کی وجہ سے پیداوار اور آمدنی میں تعطل پیدا ہوا اور کاروباری سرگرمیاں رک گئی ہیں۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بے حد اضافے کے اثرات۔
کرپشن دیمک کی طرح ملکی معیشت کو کھا رہی ہے۔
بیڈ گورننس یا بُری طرز حکومت۔
دہشت گردی، جلسے جلوس، ہنگامہ آرائی توڑ پھوڑ۔
سیاسی عدم استحکام بھی معاشی عدم استحکام کا باعث ہے۔
غیرملکی مداخلت اور دشمن عناصر کی پراکسی وار بھی ملک کی معیشت کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔

مطلقہ خبریں