Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

قراردادِ پاکستان اور دو قومی نظریہ

سرسیداحمد خان پہلے مسلمان مفکر ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو نظریاتی اور سیاسی طور پر ایک علیحدہ قوم ہونے کا احساس دلایا
خواجہ رضی حیدر
آل انڈیا مسلم لیگ کے مارچ 1940ء کے اجلاس لاہور میں منظور کی جانے والی علیحدہ وطن کے مطالبے پر مبنی قرارداد جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مقبولیت حاصل ہوئی، دراصل برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی طویل سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی تاریخ کے تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس ضمن میں مؤرخین کی آرا میں بڑی حد تک ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور ہر شخص اس بنیادی نکتے پر متفق نظر آتا ہے کہ صدیوں پر مشتمل مسلمانوں اور ہندوؤں کے باہمی روابط کے نتیجے میں یہ بات تقریباً طے پا چکی تھی کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں اور ان کا ایک ہی معاشرے میں ضم ہو کر رہنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ یہی وہ حقیقت تھی جو دو قومی نظریے کی تخلیق اور مقبولیت کا سبب بنی اور اسی حقیقت کے پیش نظر 1857ء کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف اپنے ملی تشخص کو فروغ دیا بلکہ اسی ملی تشخص کی رہنمائی میں اپنی سیاسی اور ثقافتی بازیافت کے لئے جدوجہد شروع کی۔
تاریخی حقائق بھی اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنی ہندوستان آمد کے بعد اور خصوصاً اپنے قیامِ اقتدار کے بعد ایسے اقدامات کئے جن سے ان کی حکومتیں مقامی آبادی کی نظروں میں اجنبی اور بدیسی نہ رہیں۔ مسلمان حکمرانوں نے مقامی آبادی سے سماجی روابط اختیار کئے، مقامی روایات سے مفاہمت اور نسلی علیحدگی پسندی سے گریز کرتے ہوئے ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ہندوؤں نے ہمیشہ خود کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھا کیونکہ وہ یہ بات پسند ہی نہیں کرتے تھے کہ ہندوستان پر ان کے علاوہ کسی اور قوم کی حکمرانی قائم ہو۔ جیسا کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے لکھا ہے کہ ”ہندوؤں کے رویے میں تاریخ کے کسی موڑ پر بھی مصلحتاً کوئی لچک پیدا نہیں ہوئی، وہ برابر اس خطے سے مسلمانوں کی بیخ کنی پر آمادہ و تیار رہے۔ مسلمانوں کی حکومت کا وجود ان کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا اور وہ برصغیر میں ہندو راج کے قیام کے لئے کوشاں رہے“۔
مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں نے اپنے تعصب کا کھل کر اظہار شروع کردیا تھا اور ان کی حتی الامکان یہی کوشش تھی کہ کسی صورت سے مسلمانوں کے اقتدار کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔ خصوصاً ایک مرتبہ سردار شیواجی نے اٹھارویں صدی میں ہندوؤں کو مسلم کشی پر آمادہ کرنے کے لئے بڑا زور مارا۔ شیواجی کی مسلم دشمنی اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ اس نے راجا جے سنگھ کے نام ایک خط میں لکھا ”میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ افسوس صدافسوس کہ یہ تلوار مجھے ایک اور مہم کے لئے میان سے نکالنا پڑی۔ اسے مسلمانوں کے سروں پر بجلی بن کر گرنا چاہئے تھا جن کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ جن کو انصاف کرنا آتا ہے۔ میری بادلوں کی طرح گرجنے والی فوجیں مسلمانوں پر تلواروں کا وہ خونی مینہ برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے دوسرے تک سارے مسلمان اس خون کے سیلاب میں بہہ جائیں گے اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہیں رہے گا“۔ شیواجی کے اس خط سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ برصغیر سے مسلمانوں کو ختم کرکے اس خطے کا عام مذہب ہندو دھرم کو بنانا چاہتا تھا۔ اس ضمن میں دیگر ہندو رہنماؤں نے بھی سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی بالادستی کو ختم کرنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جبکہ دوسری طرف مسلمان دونوں قوموں کے درمیان تعاون کی برابر راہیں استوار کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ مسلمانوں کی یہ کوششیں 1857ء تک ہی نہیں بلکہ اس کے بعد کے ادوار میں بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہیں لیکن یہ کوششیں مسلسل بے سود ثابت ہوئیں۔ ہندو اپنے رویے پر قائم رہے حتیٰ کہ 1867ء میں انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ بنارس کی عدالتوں میں اُردو کی جگہ ہندی کو رائج کیا جائے۔ بقول پروفیسر شریف المجاہد ”اگرچہ دونوں زبانوں میں بجز رسم الخط کے کوئی بڑا فرق نہیں تھا، تاہم یہ مطالبہ بلاوجہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کی وجوہات مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل تھیں۔ چنانچہ مسلمان اپنے معاشرتی، ثقافتی اور روحانی ورثے کو سرکش ہندو پرستی سے بچانے کے لئے انتہائی چوکس ہوگئے۔ انہوں نے ان تمام باتوں کے نتیجے میں 1870ء سے ہی قومیت کے اپنے پرانے شدید احساس کا مظاہرہ شروع کردیا۔ خصوصاً لباس، سلام و دُعا، مذہبی انفرادیت اور دیگر خارجی امتیازات کو ہندوؤں کے مقابلے میں اس طرح نمایاں کرنا شروع کردیا جس کی ضرورت ان کو اپنی بالادستی کے دنوں میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی“۔
اس حوالے سے سرسید احمد خان پہلے مسلمان مفکر ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کو نظریاتی اور سیاسی طور پر ایک علیحدہ قوم ہونے کا احساس دلایا۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ہندو غلبہ رکھنے والی نوتشکیل شدہ سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس سے علیحدہ رہیں اور اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھیں، سر سید احمد خان کے تمام رفقاء نے بھی کانگریس کو مسلمانوں کے قومی تشخص کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ یہی وہ لائحہئ عمل تھا جس کے نتیجے میں مسلمان رہنماؤں نے ایک علیحدہ سیاسی جماعت کی تشکیل پر غوروخوض کیا۔ سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء کے طرزِعمل سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ مسلمانوں کا جدید فہم و فراست رکھنے والا طبقہ کسی طرح بھی ہندوؤں کی بالادستی قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے حالات و واقعات رونما ہوتے رہے جن کی بنا پر یہ حقیقت بھی واضح ہوتی چلی گئی کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں اور ان کو ایک ہی دستور کے اندر رکھنے کی کوشش خانہ جنگی اور طبقاتی منافرت کو فروغ دے گی۔
قائداعظم محمد علی جناح جن کی سیاسی زندگی کا آغاز 1905ء میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے ہوا اور جن کو ان کی میانہ روی اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے بھرپور کوششوں کی بنا پر 1916ء میں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا گیا۔ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ ہندو مسلم اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ہندو ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ اس خطے میں مسلمان کوئی باوقار مقام حاصل کرسکیں۔ 1928ء میں نہرو رپورٹ نے اس حقیقت کو مزید واضح کردیا کہ انڈین نیشنل کانگریس اور اس کی قیادت کا مطمع نظر صرف ہندوؤں کی بالادستی اور اقتدار کا قیام ہے، جس کے پیش نظروہ مسلمانوں سے ہر قسم کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کی اس حکمت عملی کا احساس دیگر مسلم رہنماؤں کو بھی شدت کے ساتھ تھا، اس لئے دسمبر 1930ء میں پہلی مرتبہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے مسلمانوں کی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ ”ہندوستان میں مغربی جمہوریت کے اصولوں کا مختلف اقوام کے وجود کو تسلیم کئے بغیر اطلاق ممکن نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندوستان میں ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے، بالکل حق بجانب ہے“۔ علامہ اقبال نے مزید کہا کہ میری ذاتی طور پر خواہس ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ضم کردیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنتِ برطانیہ کے اندر حکومت خوداختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر، مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی“۔ علامہ اقبال کی یہ تجویز دراصل برصغیر کی سیاسی تاریخ کے ایک طویل مطالعے اور تجزیے کا نتیجہ تھی اور انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اس خطے میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کی ضرورت مسلمہ ہے اور اس کے بغیر مسلم ثقافت اور روایات کا تحفظ ناممکن ہے۔ علامہ اقبال کی اس تجویز نے ہندوؤں کے رویہ سے مایوس مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کی اور وہ سنجیدگی کے ساتھ اس سمت میں غوروفکر کرنے لگے۔1930ء سے لے کر 1940ء تک تقسیمِ ہند کی مختلف اسکیمیں اور تجاویز منظرعام پر آئیں لیکن ان میں چوہدری رحمت علی کی تجویز اس اعتبار سے بڑی اہم ہے کہ چوہدری رحمت علی سے ہندوستان کے شمال مغربی صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ وفاق کا مطالبہ ہی نہیں کیا بلکہ اس وفاق کے لئے ”پاکستان“ کا لفظ بھی وضع کیا۔ چوہدری رحمت علی کی تجویز کو اس بنا پر زیادہ شہرت حاصل ہوئی کہ جس وقت یہ تجویز سامنے آئی، اُس وقت لندن میں برصغیر کی تقدیر کے حوالے سے گول میز کانفرنسیں منعقد ہورہی تھیں، جن میں مسلمان مندوبین کانگریسی رہنماؤں کے رویہ سے دلبرداشتہ تھے۔ ایسی صورت میں یہ تجویز گول میز کانفرنسوں کی سلیکٹ کمیٹی میں زیربحث آئی، بلکہ عمومی طور پر برصغیر کے مسلمانوں میں مقبول بھی ہوئی۔ خاص طور پر مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا مجوزہ نام چاروں طرف گونج اٹھا اور اس کے بعد متعدد اطراف سے تقسیم ہند کی تجاویز پیش کی جانے لگیں۔ اکتوبر 1938ء میں سندھ صوبائی مسلم لیگ کانفرنس میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں جماعتی سطح پر پہلی مرتبہ تقسیم ہند کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس قرارداد پر اظہار کیال کرتے ہوئے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے لکھا ہے کہ ”مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کے مسلمانوں کے حق خودارادی کے لئے گفتگو کا آغاز کیا اور پہلی مرتبہ مسلم لیگ نے ہندوستان کے لئے ایک ایسے دستور کا مطالبہ کیا جس کے تحت مسلمان مکمل آزادی حاصل کرسکیں۔
مسلمانوں کے اس اندازِفکر کو مزید تقویت دراصل اس وقت حاصل ہوئی جب 1932ء میں عام انتخابات کے بعد کانگریس نے ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلم نمائندوں کو نظرانداز کرتے ہوئے وزارتیں قائم کیں اور ایسے پروگرام اور پالیسیاں وضع کیں جن کا مقصد مسلمانوں کی قومی شناخت کو ختم کرکے ہندو قومیت میں ضم کرنا اور ان کو اپنا تابع محض بنا کر رکھنا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اکتوبر 1937ء کے مسلم لیگ کے اجلاس لکھنؤ میں س صورتِ حال کا سختی سے نوٹس لیا اور نہایت واشگاف الفاظ میں کہا کہ ”کانگریس بنیادی طور پر ایک ہندو تنظیم ہے اور اس کا مظاہرہ کانگریس کے رہنمں نے اپنے قول و فعل اور اپنے پروگرام سے کردیا ہے۔ اکثریتی فرقے کو جب سے اقتدار ملا ہے اس نے یہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ ”ہندوستان ہندوؤں کے لئے ہے“۔
کانگریسی وزارتوں نے مسلمان اقلیتوں کے ساتھ نہایت ظالمانہ اور انسانیت سوز سلوک روا رکھا، جس کے پیش نظر مسلم لیگ نے ایک آٹھ رکنی تحقیقاتی کمیٹی راجا سید محمد مہدی آف پیرپور کی نگرانی میں قائم کی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں جو بعد میں ”پیرپور رپورٹ“ کے نام سے معروف ہوئی لکھا کہ ”تقریباً ہر ہندو سوراج کو ”رام راج“ اور کانگریسی حکومت کو ہندو حکومت تصور کرتا ہے۔ کانگریس کے اراکین کی ایک بڑی تعداد ہندوؤں پر مشتمل ہے جو مسلمانوں اور برطانیہ کی طویل حکمرانی کے بعد خالصتاً ہندو راج کے قیام کا خواب دیکھ رہی ہے“۔ ہندوؤں کی جانب سے مسلسل غیرمفاہمانہ رویے نے یہ احساس اس حد تک شدید کردیا کہ مارچ 1940ء کے اجلاس لاہور سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر کہا کہ ”اسلام اور ہندومت اپنے لفظی معنی میں صرف مذاہب ہی نہیں بلکہ یہ دو مختلف اور مخصوص سماجی نظام بھی ہیں۔ اور یہ ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان بھی ایک مشترکہ قومیت کی حیثیت سے اُبر سکیں گے۔ ایک ہندوستانی قوم کی غلط فہمی حدود سے تجاوز کر چکی ہے اور یہی ہماری بیشتر مشکلات کا سبب ہے۔ اگر ہم نے بروقت اپنے خیالات پر نظرثانی نہیں کی تو یہ غلط فہمی ہندوستان کو تباہ و برباد کردے گی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف مذہبی فلسفوں م معاشرتی رسم و روایات اور ادبیات سے ہے۔ نہ ان کے درمیان شادیاں ہوتی ہیں اور نہ یہ ایک دوسرکے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں دو ایسی تہذیبوں کے پیروکار ہیں جن کی بنیاد متصادم خیالات اور تصورات پر ہے۔ لہٰذا لامحالہ یہ ہوگا کہ ان میں بے چینی بڑھے گی اور بالآخر تمام نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
لاہور کے اسی تاریخی اجلاس میں ہندوستان کے آئینی مسائل کے حل کے لئے ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں مسلمانانِ برصغیر کے لئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا بڑے واضح الفاظ میں مطالبہ کیا گیا اور یہی قرارداد بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے معروف و مقبول ہوئی۔ ایک ایسے وطن کا قیام جس میں مسلمان اپنے اصولوں اور اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں، یہی بات اس قرارداد کی رُوح تھی، جس کا خمیر دو قومی نظریے سے اٹھا تھا۔ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری اور اُن کے اولین سوانح نگار مطلوب الحسن سید نے لکھا کہ ”یہ قرارداد مسلمانوں کے دستوری مسائل کا مثبت حل تھی اور اس کی منظوری کے بعد مسلمانوں کی جدوجہد کا اُفق واضح اور روشن ہوگیا تھا۔ ان کی منزل سامنے آ گئی تھی اور انہیں ایک ہی بات کے لئے جدوجہد کرنا تھی اور وہ بات تھی آزاد مملکت کا قیام“۔
مطلوب الحسن سید نے مزید لکاھ کہ ”اگر قراردادِ پاکستان پیش نہ ہوتی تو آج بھارت ازاد نہ ہوتا کیونکہ اسی قرارداد کی منظوری کے بعد ہندوؤں کے ایک علیحدہ وطن کا تصور سامنے آیا“۔
قراردادِ پاکستان کا مسلمانوں نے بہت والہانہ خیرمقدم کیا، جبکہ اس حوالے سے ہندوؤں کا رویہ شدید مخالفانہ تھا۔ انہوں نے اس قرارداد سے مسلمانوں کو متنفر کرنے کے لئے قرارداد کی طرح طرح کی مخالفانہ تاویلات پیش کرنا شروع کردیں۔ ہندوؤں کے مہاتما گاندھی نے 6 اپریل 1940ء کو اپنے اخبار ”ہریجن“ میں لکھا کہ ”مسلمانوں کا ادراک ارو ذاتی مفادات کا فہم ان کو ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے ہمیشہ روکے رکھے گا۔ ان کا مذہب بھی ایسی واضح خودکشی سے جس کی تقسیم دلالت کرتی ہے، ممانعت کرتا ہے۔ دوقومی نظریہ غیرحقیقی ہے“۔ اگر ہندوستان کی فرقہ ورانہ صورتِ حال کے تناظر میں حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ شیواجی سے لے کر گاندھی جی تک ہر ہندو کی نظر میں مسلمانوں کا علیحدہ تشخص اور ان کی اقتدار میں شمولیت کا ایک ناقابل معافی جرم کی صورت تھی۔ وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہے کہ مسلمان دوقومی نظریے سے دستبردار ہوجائیں جو ایک علیحدہ وطن کے قیام کی اساس و بنیاد ہے، لیکن ان کے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے اور مسلمانانِ برصغیر نے قراردادِ پاکستان کی رہنما اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں 14 اگست 1947ء کو اپنی آرزوؤں اور امنگوں کے مطابق نہ صرف پاکستان حاصل کرلیا بلکہ ہندوؤں اور پوری دُنیا پر یہ واضح کردیا کہ مسلمان اپنی ثقافت، روایات اور مذہبی اقدار کے تحفظ کے لئے ہر قسم کی آزمائش میں پورا اُترنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

مطلقہ خبریں