Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان کا معاشی و عسکری چیلنج

پاکستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے، مشرق میں ہندوستان سے متصل طویل سرحدی پٹی قیامِ پاکستان سے ہی غیرمحفوظ ہے، کشمیر تنازع کے باعث پاکستان کے مشرقی سرحد پر تناؤ رہنا معمول کی بات ہے لیکن اب مغربی سرحد بھی غیرمحفوظ ہوتی جارہی ہے، 15 اگست 2021ء کو طالبان نے کابل کا دوبارہ کنٹرول حاصل کیا تو ہمارا افغانستان سے متصل مغربی بارڈر بھی غیرمحفوظ ہوگیا ہے، متعدد مرتبہ افغانستان سے دہشت گردوں نے پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا، اسی طرح کالعدم جماعت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ملک کے اندر دہشت گردی میں اضافہ کردیا، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 15 اگست 2021ء سے 14 اگست 2022ء تک پاکستان میں دہشت گردی کے 250 واقعات ہوئے، جس میں سیکیورٹی فورسز سمیت 433 افراد شہید اور 719 زخمی ہوئے۔ اس سے قبل اگست 2020ء سے 2021ء تک 165 دہشت گردی کے حملے ہوئے تھے جس میں 294 شہادتیں ہوئیں اور 294 افراد زخمی ہوئے تھے۔ طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 51 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، اگست 2022ء سے 2023ء کے اختتام تک بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا بلکہ خیبرپختونخوا کا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان دہشت گردوں کے نئے مرکز کے طور پر سامنے آیا ہے، 12 دسمبر 2023ء میں سیکیورٹی فورسز کے ٹریننگ سینٹر پر حملے میں 25 پاکستانی فوجی شہید ہوئے، جسے پاکستان میں دوسرا APS حملے جیسا سمجھا گیا، اس سے قبل اور بعد میں بھی مذکورہ ضلع میں آئل کمپنی کے اہلکاروں اور پولیس پر کئی حملے ہوئے جس کے تانے بانے افغانستان میں موجود TTP سے جا ملتے ہیں۔ پاکستان نے افغان ناظم الامور کو دفترخارجہ طلب کرکے اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا، جس پر افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دہشت گردی کے واقعات سے لاتعلقی کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے طویل دورۂ امریکا میں اس مسئلہ کو اٹھایا اور امریکی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان حکومت سے دوحہ معاہدے کی پاسداری کرائے، ورنہ پاکستان حقِ دفاع میں کارروائی کا حق استعمال کرسکتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان حملے کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی تھی، اس سے قبل میانوالی ایئربیس پر بھی حملے اور فروری 2023ء میں بلوچستان کے ضلع چمن میں حملے کو قبول کیا تھا، حالانکہ تحریک طالبان پاکستان نے اس تنظیم کی کارروائیوں کو جھوٹا پروپیگنڈا قرار دیا تھا، ان کے مطابق یہ تنظیم صرف انٹرنیٹ پر موجود ہے زمین پر حقیقی وجود ہیں رکھتی لیکن میانوالی میں پاک فضائیہ کے بیس پر حملے کے بعد پاکستانی حکومت اور فورسز نے اسے سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے، اس تنظیم کے سربراہ عبداللہ افغانی ہیں جبکہ ترجمان ملا قاسم ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں گزشتہ چند ماہ میں دہشت گردی کی کارروائیاں اس جانب اشارہ ہے کہ دہشت گردوں نے اس ضلع کے ذریعے خیبرپختونخوا کے ساتھ بلوچستان کو بھی نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے کیونکہ ڈیرہ اسماعیل خان نیشنل ہائی وے این 50 پر واقع ہے جو خیبرپختونخوا کو ڈی آئی خان کے راستے بلوچستان کے ضلع ژوپ سے ملاتا ہے، بہرحال افغان سرزمین کے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے پر پاکستان کا احتجاج اصول پر مبنی ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں غیرقانونی مقیم افغانی بھی اس کا حصہ بن چکے ہیں، اسی لئے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے ملک میں غیرقانونی مقیم افغانیوں اور دیگر ملکوں کے شہریوں کو پاکستان سے نکل جانے کی مہلت دی بلکہ افغانستان سے آمدورفت کے لئے پاسپورٹ اور ویزا کو ضروری قرار دیا، اس حکم پر 13 جنوری سے عملدرآمد شروع ہوا تو افغان حکام نے بارڈر بند کردیا، جس سے دوطرفہ تجارت تقریباً 10 دنوں تک معطل رہی، افغان قونصلر جنرل اور پاکستان بارڈر حکام کے درمیان مذاکرات کے بعد پاکستان نے 15 فروری تک دستاویزات اور ویزا کے معاملے میں چھوٹ دے دی۔ غرض ہماری افغان سے متصل سرحد مسلسل غیرمحفوظ ہوتی جارہی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک صورتِ حال یہ ہے کہ ایران سے متصل سرحد بھی غیرمحفوظ ہورہی ہے، 16 جنوری 2024ء کو ایران نے بلوچستان کے علاقے میں حملہ کیا، جس پر ایران کا دعویٰ تھا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا مگر اس حملے میں دو بچے جاں بحق اور تین زخمی ہوئے۔ ایران کا یہ انتہائی اقدام پاکستان کے لئے غیرمتوقع تھا، ایرانی اپنے تحفظات کو مختلف رابطہ چینلز کے ذریعے پہنچا سکتے تھے لیکن انہوں نے عسکری طاقت کا استعمال کرکے پاکستان کو چیلنج کیا، جس کے جواب میں پاکستان نے 18 جنوری 2024ء کی صبح کو ایران کے صوبے سیستان میں بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف جوابی حملہ کیا، جس میں تقریباً 7 بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے کمانڈر مارے گئے، جن کی تفصیلات آئی ایس پی آر نے حملوں کے چند گھنٹوں بعد جاری کردیں، ایران نے ان ہلاکتوں کی تردید نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بلوچ عسکریت و علیحدگی پسند ایران میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور پاکستان میں انہیں لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کرکے احتجاج کیا جارہا ہے۔ بہرحال ایران کے اس احمقانہ حملے کا پاکستان نے دندان شکن جواب دیا جو پاکستان کی مجبوری تھی کیونکہ کوئی طاقت کا استعمال کرے گا تو اُسی انداز میں جواب دینا بنتا ہے لیکن دونوں ملکوں کو اس سنگین صورتِ حال تک پہنچنے کے اسباب پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ اب ذکر ہوجائے پاکستان کو درپیش معاشی چیلنج کا جو گھمبیر ہوتا جارہا ہے، موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں پاکستان کا قرض کی ادائیگیوں اور اصل زر کی واپسی پر آنے والا خرچ 74 فیصد بڑھا ہے، بیرونی ادائیگیوں پر بڑھتا ہوا سود ایک اور بوجھ بن گیا ہے، پالیسی ریٹ بڑھنے سے سود کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ 600 ارب روپے سے زیادہ پی آئی اے کا خسارہ، تقریباً 250 ارب روپے کا ریلوے اور 200 ارب روپے واپڈا کا خسارہ، اس کے علاوہ دیگر سرکاری اداروں کا بڑھتا خسارہ بھی ملکی معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ بنتا جارہا ہے، اوپر سے پنشن کی مد میں گزشتہ 12 سال میں 500 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ 2023ء کے بجٹ میں پنشن پر 228 ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا تھا، 2023-24ء کے لئے 14460 ارب روپے کے سالانہ بجٹ میں 6924 ارب روپے کے خسارے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، اس پر آئی ایم ایف نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، سال 2023ء کے اختتام تک حکومت کا قرض 60 ہزار 839 ارب روپے ہوچکا ہے جس میں بیرونی قرضے کا حجم 22 ہزار 30 ارب روپے اور 38 ہزار 808 ارب روپے کا اندرونی ہے۔ گزشتہ سال پاکستان نے اصل زر اور سود کی ادائیگی میں 20 ارب 81 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی، جس میں اصل ادائیگی 16 ارب 89 کروڑ ڈالر اور سود پر 4 ارب 42 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے اس پر حقیقی انداز سے عملدرآمد ہوجائے تو پاکستان معاشی بھنور سے نکل سکتا ہے۔ انتخابات کے بعد ملک میں معاشی اصلاحات کا نظام متعارف کروانے کی ضرورت ہے، ایک بیس سالہ معاشی پروگرام کی تشکیل ضروری ہوگئی ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس کے لئے مل کر بیٹھنا ہوگا، معاشی طور پر مستحکم ہوجائیں گے تو عسکری طور پر بھی مضبوط اور طاقتور ہوجائیں گے، عسکری اہداف کا حصول مضبوط معیشت کے کوکھ سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔

مطلقہ خبریں