Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان کے لیجنڈری اداکار۔۔ طلعت حسین

طلعت حسین نے ٹیلی ویژن کے سیکڑوں ڈراموں میں ایسی لازوال اداکاری کی ہے کہ ان کے نام بتانا بھی بہت مشکل ہے تاہم وہ جس ڈرامے میں نظر آئے، ان کی جاندار اداکاری کی وجہ سے وہ ڈرامہ ہٹ ہوگیا
خالد یزدانی
طلعت حسین بلامبالغہ پاکستان کے لیجنڈری اداکار ہیں۔ کراچی میں مقیم اداکار آج کل صحت کے مسائل سے بھی دوچار ہیں، گزشتہ دنوں طلعت حسین کی اہلیہ رخشندہ طلعت نے بتایا تھا کہ ان کے شوہر کے پھیپھڑے کمزور ہوچکے ہیں۔ انہیں متعدد بار اسپتال منتقل کیا گیا اور کمزوری کی وجہ سے وہ گھر میں گر بھی پڑے تھے جس وجہ سے اب وہ وہیل چیئر اور بستر تک محدود ہوچکے ہیں اور ان کا علاج جاری ہے۔ اللہ تعالی انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے۔آمین۔
طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد ہے اور انہوں نے فنون لطیفہ کو نصف صدی دی ہے۔ بقول حفیظ جالندھری: ”یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں“
یعنی انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اداکاری، صداکاری اور فنون لطیفہ کو دی۔ طلعت حسین نے 1970ء سے قبل کم عمری میں ہی اداکاری شروع کردی تھی لیکن انہیں 1970ء کے بعد شہرت ملنا شروع ہوئی۔ لندن سے تعلیم حاصل کرنے والے طلعت حسین نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغا ز کیا اور انہوں نے برطانوی ٹی وی سمیت بالی ووڈ فلموں میں بھی کام کیا۔ طلعت حسین نے ٹیلی ویژن کے سیکڑوں ڈراموں میں ایسی لازوال اداکاری کی ہے کہ ان کے نام بتانا بھی بہت مشکل ہے تاہم وہ جس ڈرامے میں نظر آئے، ان کی جاندار اداکاری کی وجہ سے وہ ڈرامہ ہٹ ہوگیا۔ طلعت حسین نے زندگی کا نہایت مشکل دور بھی دیکھا، وہ اداکاری کی اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن میں تھے، انہیں ایک نشریاتی ادارے میں تو کام ملنا شروع ہوگیا تھا لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کام سے گزربسر ممکن نہیں تھی۔ اس لئے ویٹر کی جزوقتی ملازمت بھی کی۔ وہ اداکار کے طور پر ایک پہچان بنا چکے تھے اِس لئے یہ کام بہت مشکل ہوتا تھا۔ طلعت حسین وہ شخصیت ہیں جو اپنی ذات میں فن کی یونیورسٹی ہیں۔ انہوں نے ناصرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ گلوکاری اور پیٹنگ میں دلچسپی رکھنے کے باوجود اداکاری کے شعبے میں نام اور مقام بنایا اور کئی اہم دستاویزی فلموں اور کمرشلز میں پس پردہ آواز کا جادو جگایا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ طلعت حسین کے کریئر کی ابتدا بچوں کے ایک رسالہ میں مضامین لکھنے سے ہوئی۔ طلعت حسین دو مرتبہ قرآن پاک کا ترجمہ ریکارڈ کرانے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔ بہت کم فنکار ایسے ہوتے ہیں جن کو تلفظ کی ادائیگی پر عبور حاصل ہو اور طلعت حسین کا شمار ایسے ہی فنکاروں میں ہوتا ہے جو لفظوں کی ادائیگی میں بھرپور صوتی تاثرات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ طلعت حسین اداکاری پر ہی نہیں ادب، فلسفے، مذہب، تصوف، مصوری اور سیاست سمیت ہر موضوع پر گھنٹوں گفتگو کرسکتے ہیں اور ہر وقت ان شعبوں کی قدیم و جدید کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ طلعت حسین بلاشبہ وہ فنکار ہیں جو پاکستان کی پہچان ہیں اور انہوں نے عوام کے دلوں پر اپنی اداکاری کے وہ نقش ثبت کئے ہیں کہ انہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ارجمند، آنسو، طارق بن زیاد، دیس پردیس، عید کا جوڑا، فنون لطیفہ، ہوائیں، اک نئے موڑ پہ، پرچھائیاں، دی کاسل، ایک امید، ٹائپسٹ، انسان اور آدمی، رابطہ، نائٹ کانسٹیبل اور درد کا شجر وغیرہ ان کے مقبول ڈرامے ہیں۔ انہوں نے متعدد فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں چراغ جلتا رہا، گمنام، انسان اور آدمی، جناح، لاج، قربانی، سوتن کی بیٹی (انڈین)، اشارہ، آشنا، بندگی اور محبت مر نہیں سکتی وغیرہ شامل ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ طلعت حسین ملک سے باہر ویٹر کا کام کرتے تھے، اس بارے میں وہ کہتے ہیں ”مشکل اُس وقت ہوتی تھی جب کوئی پاکستانی فیملی ہوٹل میں کھانا کھانے آتی۔ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیتی۔ مجھے آرڈر دیتے ہوئے انہیں جھجک ہوتی۔ میں ان سے کہتا کہ وہ بے چین نہ ہوں اور اطمینان سے اپنا آرڈر لکھوا دیں۔ اس کے بعد صورتِ حال اُس وقت مزید پیچیدہ ہوجاتی جب اُنہیں بل کے ساتھ ٹپ دینا ہوتی۔ پاکستانی مجھے ٹپ دیتے ہوئے شرماتے تھے۔“ طلعت حسین بتاتے ہیں کہ میں نے انگلش لٹریچر میں گریجو یشن کیا۔ پھر لندن چلا گیا اور تھیٹر آرٹس میں لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے ٹریننگ حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ تھیٹر آرٹس پڑھنے کے ساتھ مجھے بی بی سی پر کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ یہ اس لحاظ سے یادگار کہہ سکتے ہیں کہ میں نے نہایت پروفیشنل ماحول میں کام کیا اور بہت کچھ سیکھا اور پھر اس کا فائدہ میں نے پاکستان میں آکر خوب اُٹھایا۔ طلعت حسین نے لندن میں ریڈیو پر کام کے دوران یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ کریئر بھی یہیں بنا لیا جائے۔ ان کا ٹارگٹ تھیٹر آرٹس میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آنا تھا۔ اس لئے جونہی تعلیم مکمل ہوئی وطن آگئے۔ وہ وہاں کام کررہے تھے، مواقع مل رہے تھے چاہتے تو وہیں رُک جاتے۔ بچپن میں طلعت حسین کو گلوکار بننے کا شوق تھا۔ والد نے ہارمونیم بھی لا کر دیا لیکن والدہ کو یہ پسند نہیں تھا۔ یوں انہیں یہ شوق ترک کرنا پڑا۔ پھر وہ پینٹنگ کی طرف راغب ہوئے۔ اگر ایک مقابلے میں ہار نہ جاتے تو شاید آج پینٹر ہوتے۔ والد صاحب کی یہ خواہش بھی تھی کی وہ لٹریچر خوب پڑھیں۔ وہ انہیں انگریزی ناول لا کر دیتے، بس یہیں سے انہیں پڑھنے کا شوق ہوا۔ وہ زیادہ تر پیسے کتابوں کی خریداری میں خرچ کرتے۔ درحقیقت طلعت حسین کے والدین پڑھے لکھے اور براڈ مائنڈڈ لوگ تھے۔ والد تقسیمِ ہند سے پہلے سرکاری ملازم تھے اور والدہ ریڈیو پر شوقیہ پروگرام کیا کرتی تھیں۔ دو بھائی تھے۔ یہ لوگ دہلی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ ان کے والد کی پوسٹنگ راولپنڈی میں ہوگئی تھی۔ اس وقت طلعت حسین کی عمر دو یا تین سال تھی۔ بڑی مشکل سے اپنا سامان بچا کر پنڈی بھجوایا اور خود کراچی کے راستے پاکستان پہنچے تو پتہ چلا کہ والد صاحب کو کراچی میں تعینات کردیا گیا تھا۔ کچھ دن بعد وہ اپنا سامان لینے گئے تو معلوم ہوا کہ ان کا سارا سازوسامان پنڈی میں لٹ چکا تھا۔ ان کے والد کو اس نقصان سے بہت صدمہ پہنچا اور وہ بیمار رہنے لگے۔ بعد میں ان کو دمے کا مرض لاحق ہوگیا اور اوور ڈوز انجکشن کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ مفلوج ہوگئی تو وہ بستر کے ہو کر رہ گئے۔ انہی دنوں کراچی ریڈیو کا آغاز ہوا تو طلعت حسین کی والدہ نے وہاں ملازمت کرلی اور آخری دم تک ریڈیو سے وابستہ رہیں۔ طلعت حسین کی والدہ ان کے اس فیلڈ میں آنے کے سخت خلاف تھیں۔ وہ بالکل نہیں چاہتی تھیں کہ وہ یہ کام کریں بلکہ ان کی خواہش تھی کہ طلعت حسین سول سروس میں جائیں لیکن انہیں اس سے بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ پھر ماموں اور والد نے سمجھایا کہ اگر وہ یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو کرنے دیں تو والدہ انہیں ریڈیو لے گئیں۔ آڈیشن دلایا۔ اس زمانے میں بچوں کے لئے ایک پروگرام ہوا کرتا تھا۔ ”اسکول براڈ کاسٹ“ جس میں تعلیمی نصاب پر مبنی ڈرامائی فیچر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے والدہ سے اصرار کیا اور بہانہ بنایا کہ یہ پروگرام کرنے سے انہیں تعلیم میں بہت فائدہ ہوگا۔ اس طرح کام شروع کیا۔ داد ملتی گئی، لوگ پسند کرنے لگے۔ پھر انہوں نے اسٹوڈیو 9 میں کام شروع کردیا اور والدہ کوشش کے باوجود انہیں روک نہیں سکیں اور وہ کام کرتے چلے گئے۔ طلعت حسین اپنی شادی کے متعلق بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو مجھے ”بیگم صاحبہ“ نظر آگئیں۔ وہ سائیکالوجی میں ماسٹرز کررہی تھیں۔ مجھے اچھی لگیں۔ میں نے انہیں اپنی والدہ سے ملوایا۔ انہیں پسند آگئیں، پیغام بھجوایا اور یوں شادی ہوگئی۔ اس زمانے میں ہم یونیورسٹی میں ملا کرتے تھے، بہت پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ ماسٹرز کرنے کے بعد یونیورسٹی میں پڑھانے لگی۔ ہیڈ آف سائیکالوجی کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ طلعت حسین کی والدہ نے شادی کے وقت ان کی بیگم سے کہا تھا کہ میں تمہیں یہ گارنٹی دیتی ہوں کہ میرا بیٹا دوسری شادی نہیں کرے گا لیکن تمہاری ایک سوتن ہے اور وہ ہے ”کتاب“۔ تم اسے کتاب پڑھنے سے منع مت کرنا۔ اُن کا یہ شوق اب بھی سلامت ہے۔ ان کے تین بچے ہیں۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا، سب شای شدہ ہیں۔ بیٹا ایم بی اے کرکے ملازمت کام کررہا ہے۔ تزئین نے متعدد ڈراموں میں کام کیا، حال ہی میں ”یونہی“ کے نام سے ایک سیریل میں نظر آ چکی ہیں۔ چھوٹی بیٹی نے ڈبل ماسٹرز کیا، وہ کینیڈا میں ہوتی ہیں۔ طلعت حسین پرائڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ ناروے کی ایک فلم کی تھی ”ایکسپورٹ“، وہ بھی نارویجن زبان میں، اس میں سکینڈی نیویا کا آسکر ایوارڈ ملا تھا۔ بیگم پنڈی کی ہیں اور پنچابی ہیں جبکہ والد کشمیری پنجابی تھے۔ طلعت حسین کے پسندیدہ شاعر میر تقی میر، غالب اور اقبال ہیں۔ طلعت حسین اپنی تہذیب و ثقافت سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میری والدہ کے زمانے تک خواتین کے دوپٹے کو اُس کی عزت کی نشانی سمجھا جاتا تھا مگر آج کی خاتون اُس عزت کو سر پر اوڑھنے میں شرم محسوس کرتی ہے۔ بہرحال آج بھی اگر کسی خاتون کا دوپٹہ زمین پر گھس رہا ہو تو میں اُنہیں یہ ضرور کہہ دیتا ہوں کہ ”خدا کے واسطے“ اِسے سنبھال لیجئے۔ بقول طلعت حسین پی ٹی وی کے دور تک ہماری تہذیب بالکل ٹھیک چل رہی تھی لیکن نجی چینلز آنے کے بعد بگاڑ شروع ہوگیا۔ ماضی میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر حکومتی کنٹرول کے متعلق طلعت حسین کہتے ہیں کہ سیاسی باتوں کے علاوہ وہاں کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ لیکن اس بات کا ضرور خیال رکھا جاتا تھا کہ جو ڈرامہ یا پروگرام آپ پیش کررہے ہیں اُسے بچے بھی دیکھ اور سن رہے ہیں لہٰذا اس ذمہ داری کا خیال ضرور رکھا جاتا تھا۔ طلعت حسین کو لکھنے کا بھی بہت شوق ہے۔ ویسے تو انہوں نے تقریباً 8 کے قریب کہانیاں لکھی ہیں، 5 ڈرامے بھی لکھے ہیں جو پی ٹی وی پر نشر ہوئے۔ ایک فنکار اپنی ساری زندگی صرف کردیتا ہے پھر آخر میں اُسے ملتا کیا ہے؟۔ اس بارے میں طلعت حسین کی رائے دیگر فنکاروں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جو کام کررہا ہوں یہ اپنی ذات کے لئے ہے، جو کماؤں گا جو بچوں کو کھلاؤں گا وہ سب میرا ہی ہے اور میں اپنی ذات کو ہی جوابدہ ہوں۔ دیکھیں! جب میں نے یہ کام شروع کیا تو مجھے پتہ چل گیا تھا کہ اس کام کی منزل کیا ہے، جب میں پڑھنے کے لئے باہر گیا تو میرے پاس بہت کم پیسے تھے حالانکہ اس وقت میں شادی شدہ تھا اور اہلیہ یہاں پروفیسر تھیں اور اِسی وجہ سے میری اہلیہ کو تو وہاں فوراً ملازمت مل گئی لیکن مجھے ملازمت نہیں ملی تو وہاں میں نے ویٹری بھی کی، برتن بھی دھوئے اور چند پیسوں کو جمع کرکے پڑھا کہ ڈرامہ چیز کیا ہے… بس اسی طرح سیکھا اور جو کچھ ملا اس پہ اللہ کا شکر گزار ہوں۔

مطلقہ خبریں