Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی متحرک پالیسی

گوریلا جنگ تکلیف دہ اور طویل عمل ہے اس لئے وسائل اور ذرائع کو محفوظ کرنا ضروری ہے جس میں دشمن کا زیادہ اور اپنا کم سے کم نقصان ہونا ضروری ہے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نشاط احمد
نصرت مرزا
جب پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقت بن گئے تو پھر پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے ایک متحرک پالیسی وضع کی اور 12 اور 13 اگست 1998ء کو مظفر آباد (آزاد کشمیر) میں ایک انٹرنیشنل سیمینار منعقد ہوا، جس میں امریکا، ایران، بنگہ دیش، سری لنکا، بھارت، پاکستان کے چاروں صوبوں اور اسلام آباد و کشمیر کے مندوبین نے شرکت کی۔ سیمینار مظفر آباد یونیورسٹی اور وزارتِ اطلاعات کے تعاون سے ترتیب دیا گیا۔ امریکا سے پروفیسر النہسلی ایمبری پروفیسر آف ہسٹری کولمبیا یونیورسٹی، ممبر کشمیر اسٹڈی گروپ یو ایس اور پروفیسر چارلس کینیڈی ڈائریکٹر امریکن انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز اور ممبر پاکستان کشمیر اسٹڈی گروپ یو ایس، سری لنکا سے اسٹینلے، ڈبلو سمارا سنگھے، بنگلہ دیش سے پروفیسر آفتاب احمد، ڈھاکہ یونیورسٹی جب کہ پاکستان سے ڈاکٹر نسیم شاہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان، ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ، میر عبدالعزیز، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نشاط احمد، انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز اسلام آباد، سردار عبدالقیوم، ثریا کے ایچ خورشید، بریگیڈیئر طارق رفیع، ڈاکٹر اعجاز حسین، پروفیسر قائداعظم یونیورستی، ڈاکٹر رفعت ھسین، ڈاکٹر اشتیاق احمد، پروفیسر خالد محمود، انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز، کرنل اے رشید، اظہر عباس صحافی، غازی صلاح الدین صحافی، ڈاکٹر رسول بخش رئیس، عنایت اللہ، خواجہ ایم طارق، ثروت جمال صحافی، خالد حسن، محترمہ شاہین، کشور ناہید اور نصرت مرزا جبکہ کشمیر سے پروفیسر خان زمان مرزا، مشتاق احمد وانی، تقدیس گیلانی، ڈاکٹر محمود علی شاہ بلوچستان اور ڈاکٹر شاہ سنددر یونیورسٹی وغیرہ شامل تھے۔
کل آٹھ سیشن ہوئے، جن میں آٹھ سے زیادہ پیپرز پڑھے گئے۔ جن میں
جنوبنی ایشیائی مزاحمتی تحریکوں کا ابھارا
کشمیری تحریک کی بنیاد
کشمیر کی مزاحمتی تحریک ایک سپاہی کی نظر سے
ایٹمی برصغیر کے ابھار میں کشمیر
کشمیر کے تنازع میں کشمیر اسٹڈی گروپ امریکا کا کردار
اقوام متحدہ کشمیر اور جنوبی ایشیا
کشمیر: نئے عالمی نظام کا شکار
کشمیر میں اقوام متحدہ کی ناکامیابی
شامل ہیں۔
بارہ اگست کے تیسرے اور آخری سیشن کی صدارت لیفٹیننٹ جنرل (ر) نشاط احمد نے کی۔ جس میں بریگیڈیئر (ر) طارق رفیع نے ”کشمیری مزاحمت، ایک سپاہی کا تجزیہ“ کے عنوان سے تقریر کی۔ انہوں نے کہا کہ جبرالٹر آپریشن میں انہوں نے حصہ لیا لیکن یہ آپریشن فیل ہوگیا تاہم بہت عرصے کے بعد تحریک آزادی کشمیر عوام سے ابھری۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا پہاڑی علاقہ گوریلا وار فیئر کے لئے مثالی جگہ ہے۔ انہوں نے گوریلا جنگ کے لئے بنیادیں پیش کرتے ہوئے کہا:
قابض قوت کو اس کی بھاری قیمت کی ادائیگی کا احساس دلانا اور یہ کہ وہ وہاں ہار رہا ہے ضروری ہے۔
کشمیر میں آرمی کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے انڈیا کو اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ اس کی یہاں موجودگی کی قیمت بڑھ رہی ہے۔
گوریلا کو مواصلاتی نیٹ ورک، انڈسٹریل یونٹ اور انتظامی مراکز کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔
گوریلا جنگ تکلیف دہ اور طویل عمل ہے اس لئے وسائل اور ذرائع کو محفوظ کرنا ضروری ہے جس میں دشمن کا زیادہ اور اپنا کم سے کم نقصان ہونا ضروری ہے۔ ایک آدمی کو پندرہ بیس آدمیوں کو ٹارگٹ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہونا چاہئے۔
گوریلوں کے لئے آبادی میں سے کم از کم بیس فیصد کی حمایت ضروری ہے۔
تقریباً پچاس فیصد لاجسٹک سپورٹ، اسلحہ، راشن، کپڑے گوریلوں کو قابض فوج سے حاصل کرنا چاہئیں۔
گوریلوں کو زیادہ سے زیادہ اطلاعات و دشمنوں کے بارے میں ملنا چاہئے تاکہ وہ اپنی حکمت عملی تیار کرسکیں۔ جب آپ دور ہوں تو دشمن کو یقین دلایا جائے کہ وہ قریب ہیں اور جب قریب ہوں تو انہیں بتایا جائے کہ وہ دور ہیں۔ مغرب پر حملہ ہو تو مشرق کا پتہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت انڈین آرمی کا 44 فیصد جموں اور کشمیر میں جمع کردیا گیا ہے اور یہ بڑھتا جارہا ہے۔ نقصانات بھی بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے ہر ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے۔ اس کے لئے انہیں اور پاکستان حکومت کو سخت جدوجہد کرنا پڑے گی۔
ان کے پیپر پر کرنل (ر) اے رشید کو رائے زنی کرنی تھی لیکن انہوں نے پورا پیپر پرھ ڈالا۔ ان کے خیال میں کشمیریوں نے مسلح جدوجہد کرکے غلطی کی اور اب کشمیر میں تحریک آزادی کمزور پڑ رہی ہے۔
ان کی رائے پر کوئی متفق نہیں تھا۔

مطلقہ خبریں