Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بلیو اکنامی کی اہمیت

پاکستان کی بلیو اکنامی میں کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے
سید زین العابدین
جدید دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی اہمیت وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق آئندہ چند سالوں میں یہ دونوں شعبے معیشت کو کنٹرول کرنے لگیں گے۔ اس جدید طرزِ معاشرت کے ساتھ بلیو اکنامی کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ کسی ملک یا خطے کی سمندری حدود میں موجود قدرتی آبی وسائل جس میں تیل اور گیس کے ذخائر ہی فوڈ فشریز، شپنگ، سیاحت، ساحلی ہولز زیرآب معدنیات، قیمتی پتھر سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے ڈی سیلی نمیشن پلانٹ اور ونڈ انرجی شامل ہیں۔ کرہ ارض کا دو تہائی حصہ پانی اور ایک حصہ خشکی ہے۔ یعنی وسائل کا ایک حصہ خشکی پر ہے تو دو تہائی حصہ سمندروں میں ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق دنیا کی سمندری معیشت کا حجم چوبیس کھرب ڈالر ہے۔ عالمی تجارت کا نوے فیصد سے زائد انحصار سمندری راہداریوں پر ہے۔ پاکستان کا سمندری رقبہ تین لاکھ پچاس ہزار اسکوائر کلومیٹر ہے۔ پاکستان کے ساحلوں سے تین سو پچاس نارٹیکل میل دور تک سمندری راہداری ہے۔ یہ سمندری حدود پانچ زونز گوادر کوسٹ، لسبیلہ، کراچی ٹھٹھہ اور (رن کچھ) بدین کوسٹ میں تقسیم ہے۔ پاکستان کی بلیو اکنامی میں کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جبکہ گوادر اپنی تزویراتی اہمیت کے باعث بین الاقوامی اہمیت حاصل کرتا جارہا ہے کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگا ہیں، فشریز، آئل ٹرمینلز، گیس ٹرمینلز اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کے حوالے سے بلیو اکنامی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اسی طرح گوادر اپنی تزویراتی اہمیت کے باعث بین الاقوامی سطح پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے متعدد منصوبے گوادر سے جڑے ہوئے ہیں گوادر پورٹ کے مکمل آپریشن ہونے پر اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ کیوں کہ میری ٹائم تجارت کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ اس محلے میں اعلیٰ قسم کی مچھلیوں، جھینگے قیمتی لابسٹر اور و نافش پائی جاتی ہیں۔ جن کی یورپی ملکوں میں بڑی مانگ ہے۔ لیکن حفظان صحت اور جدید تجارتی اصولوں اور پراسیسنگ زونز نہ ہونے کے باعث یورپی یونین نے پاکستانی سی فوڈز پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ گزشتہ دس سال سے یورپی یونین کی معاشی انسپکشن ٹیم نے ہمارے پراسیسنگ کا دورہ ہی نہیں کیا۔ یورپی یونین کی پابندیوں اور سخت شرائل کی وجہ سے پاکستانی سی فوڈ چین، جاپان، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا بھجوائی جاتی ہیں۔ جہاں سے یورپ کے ملکوں میں برآمد ہوتی ہیں۔ اسی لیے سی فوڈ ایکسپورٹ کا جی ڈی پی میں حصہ صرف پانچ سوملین ڈالر ہے جبکہ ہمارا ہدف دو ارب ڈالر کی سی فوڈ برآمد کرنا ہے۔ گوادر پورٹ ایک گیم چینجر منصوبہ ہے۔ جس کی تکمیل کے گہرے اثرات پاکستان کی بلیواکنامی پر پڑیں گے۔ میری ٹائم سیکٹر سے اس وقت پاکستان کی آمدنی صرف چارسو پچاس ملین ڈالر ہے۔ لیکن بھارت کی پانچ ارب ساٹھ کروڑ ڈالر اور بنگلہ دیش کی اس سے بھی زیادہ یعنی چھ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ گوادر پورٹ سی پیک کا سب سے اہم پراجیکٹ ہے۔ اس کی تکمیل کا سب سے بڑا بینفشری چین ہوگا چونکہ چین اپنی ضرورت کا اسی فیصد تیل مڈل ایسٹ سے آبنائے حرمز کے سمندری راستے سے حاصل کرتا ہے جو امریکی کنٹرول میں ہے کسی قسم کی غیر معمولی صورتحال میں اس راہداری میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح سینٹرل چین سے یورپ کارگو بھیجنے کے لیے انہیں ہزار ایک سو بتیس نوٹیکل میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ جس میں سینٹرل چین سے شنگھائی پورٹ کا زمینی فاصلہ دو ہزار چھ سو پچیس میل اور وہاں سے یورپ تک کا بحری فاصلہ سولہ ہزار پانچ سو نوٹیکل میل ہے۔ اس طویل فاصلے کو طے کرنے میں پچاس دن لگتے ہیں۔سی پیک سمندری راہداری کے بننے کے بعد یہ فاصلہ کم ہو کر 2295 میل رہ جائے گا جسے طے کرنے میں صرف پندرہ دن لگیں گے۔ جب فاصلہ کم ہوگا تو فریڈ چارجز بھی کم ہوں گے۔ ایک چالیس فٹ کے کنٹینز کو شنگھائی سے ہمبرگ جرمنی بھیجنے میں تین ہزار ڈالر کے ٹریڈ چارجز لگتے ہیں۔ جبکہ گوادر پورٹ سے اسی شپ مینٹ کو بھیجنے کی لاگت ایک ہزار ڈالر پر آجائے گی۔ معاشی ماہرین کے مطابق چین سے امریکہ، یورپ تجارت بڑھنے سے سی پیک پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ پاکستان کو سمندری راہداری کی ٹرانزٹ فیس کی مد میں اربوں ڈالر کی آمدنی ہونے لگے گی۔ جیسا کہ سوئس کینال کی آمدنی مصر کو حاصل ہوتی ہے۔ ماضی میں بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو جوڑنے کے لیے سوئس کینال کی تعمیر ایک گیم چینجر منصوبہ ثابت ہوئی۔ 17 نومبر 1869ء کو اس کا افتتاح ہوا۔ ابتدا میں اس منصوبے کو ہائی وے آف دی برٹش امپائر کا نام دیا گیا تھا۔ کیوں کہ اس خطے میں برطانیہ اور فرانس کا کنٹرول تھا۔ اس کی تعمیر سے لندن اور ممبئی کے درمیان سمندری فاصلہ میں ہزار کلومیٹر سے کم ہو کر گیارہ ہزار پانچ سو کلومیٹر رہ گیا تھا۔تعمیر کے اگلے ہی برس اس گزرگاہ سے 486 بحری جہاز 27000 مسافروں اور تجارتی سامان کو لے کر گزر تھے۔ 1913ء تک اس سمندری راہداری سے 5100 بحری جہاز تقریباً 2 لاکھ 35 ہزار مسافروں اور سامان تجارت لے کر گزرے۔ اس تاریخی اور تزویراتی آبی گزرگاہ کے افتتاح کے موقع پر مصری حکمران اسماعیل پاشا نے کہا تھا کہ مصراب صرف افریقہ کا حصہ نہیں رہا بلکہ یورپ کا حصہ بھی بن گیا ہے۔ سوئس کینال پر بڑھتے راہداری دباؤ کو دیکھتے ہوئے اس کو مزید چوڑا کرنے کا کام 2015 میں مکمل کیا گیا۔
پہلے یومیہ 49 بحری جہاز گزرا کرتے تھے تو توسیع منصوبے کے بعد سو سے زائد جہاز روزآنہ گزرنے لگے جس سے مصر کی راہدری آمدنی تقریباً چھ ارب ڈالر سالانہ ہو گئی تھی جواب تقریباً بارہ ارب ڈالر ہے۔ نہر سوئس کی تعمیر نے 1870ء میں ہی مصر کو عالمی تجارتی نیٹ ورک سے جوڑ دیا تھا۔ سولہویں صدی میں بھی عثمانی ترکوں نے بھی دونوں سمندروں کو جوڑنے کے لیے آبی گزرگاہوں کی تعمیر کا سوچا تھا لیکن اس سے قبل بھی انسانوں کی تعمیر کردہ کسی آبی راستے کا تصور موجود تھا۔ 1798ء میں پولین کے دور میں فرانسیسی ماہرین تعمیرات مصر گئے جہاں انہوں نے آبی گزرگاہ کی تعمیرکا تخمینہ لگا کر یہ بتایا تھا کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ حقیقت پسندانہ نہیں ہوگا۔ اس منصوبے پر عملی پیشرفت فرڈینا کڈ دے لیسپ کے دور میں ہوئی اس کی تعمیر کے لیے ہزاروں کارکنوں کو یورپ سے لایا گیا۔ مین پاور کی کی کو دور کرنے کے لیے 1861ء میں مصری حکمران محمد سعید نے بالائی مصر سے مزید دس ہزار کارکنوں کو زبر دستی بلوایا۔ ایک سال بعد مزید 18 ہزار ورکرز کو لانا پڑا 193.3 کلومیٹر لمبی اور تین سو میٹر چوڑی اس نہر کی تعمیر سے قبل افریقہ کا چکر کاٹ کر یورپ اور ایشیا کے درمیان آمد و رفعت کی جاتی تھی۔ بحری جہازوں سے سامان اتارنے کے بعد بذریعہ سڑک بحیرہ قلزم تک لے جانا پڑتا تھا۔ اس نہر کی شروعات سے انگلینڈ کا ہندوستان سے فاصلہ چار ہزار میل کم ہو گیا۔ اسی طرح خلیج عمان اور فارس کے درمیان آبنائے حرمز ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ملکوں کی برآمدات کا واحد ذریعہ ہے۔ 21 میل چوڑی اور نوے میل طویل اس آبنائے سے پوری دنیا کا تیس فیصد آئل لے جایا جاتا ہے۔ یومیہ تقریباً 120 ملین بیرل تیل یہاں سے گذرتا ہے۔ جس کا 85 فیصد ایشیائی ملکوں یعنی جاپان، چین، بھارت، جنوبی کوریا اور دیگر ملکوں کو جاتا ہے۔ امریکی ادارے انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق 2011ء تک آبنائے حرمز سے یومیہ 14 بحری جہاز 17 ملین بیرل تیل لے کر گذرتے تھے۔ جس میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ مشرق وسطی کی موجودہ صورتِ حال کے باعث یہ گذر گا غیر محفوظ ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اس کی تزویراتی اہمیت برقرار ہے۔ اسی طرح نہر سوئز کی طرز پر پانامہ کینال کی تعمیر فرانس نے شروع کی لیکن دشواریوں کے باعث کام ادھورا رہ گیا فرانس کی ناکامی کے بعد امریکا نے منصوبہ مکمل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اور دس برس میں اسے مکمل کر لیا۔ 77کلومیٹر طویل اس سمندری گذرگاہ کو مکمل ہونے میں 34 سال لگ گئے۔ اس دوران 27 ہزار 609 مزدور ہلاک ہوئے۔ 1880ء سے 1889ء کے دوران فرانس کے تقریباً 22 ہزار مزدور ہلاک ہوئے۔ جبکہ 1904ء سے 1914ء تک جاری رہنے والے امریکی منصوبے کے دوران 5609 مزدور ہلاک ہوئے۔ اس اہم گذرگاہ سے ہر سال پندرہ ہزار سے زائد بحری جہاز گذرتے ہیں 1914ء سے 2002ء تک اسی نہر سے تقریباً 8 لاکھ سے زائد بحری جہاز گذر چکے تھے۔ اس آبی گذرگاہ کے باعث بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل کا سفر کم اور آسان ہو گیا۔ اس سے قبل بحری جہاز براعظم جنوبی امریکا کے گرد چکر کاٹ کر بحر الکاہل میں داخل ہوئے تھے۔ نیو یارک سے سان فرانسیکو کا فاصلہ 22500 کلومیٹر تھا جو کم ہو کر 9500 کلومیٹر پر آ گیا۔
بلیواکنامی کی اہمیت ان بحری راستوں سے سالانہ ہزاروں ارب ڈالر کا بزنس ہوتا ہے۔ جبکہ راہداری سہولت ٹیکس اور چارجز کی مد میں سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونے سے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی ہوگی۔ کیونکہ چین کے بحری جہاز مشرق وسطی کے ملکوں کا تیل لے کر یہیں سے گذریں گے۔

مطلقہ خبریں