Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

گریٹر اسرائیل کا قیام۔۔ کوئی نہیں روک سکتا مگر اللہ

اسرائیل نے غزہ پر اس قدر بمباری کی ہے کہ وہ اب قابل رہائش نہیں رہا بلکہ ایک مہیب تباہی کا منظر پیش کررہا ہے
مصطفی کمال پاشا
تمام عالمی و علاقائی عیسائی طاقتیں ڈٹ کر کھل کھلا کر اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں۔ غزہ سے شروع ہونے والی جنگ پھیلتی چلی جا رہی ہے، 7 اکتوبر 2023ء سے جاری یہ جنگ ایک علاقائی جنگ بن چکی ہے۔ فلسطینی اس جنگ میں ملوث ہوچکے ہیں، چاہے وہ غزہ کے بسنے والے ہوں یا خان یونس اور دیگر جگہوں پر رہتے ہوں، وہ سب بلاتفریق اسرائیلی بربریت کا شکار ہیں۔ اسرائیل نے غزہ پر اس قدر بمباری کی ہے اور تباہی پھیلائی ہے کہ وہ اب قابل رہائش نہیں رہا ہے، اسرائیلی بربریت کے باعث غزہ ایک مہیب تباہی کا منظر پیش کررہا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے مہاجر کیمپوں میں بھی بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کہہ رہے ہیں کہ یہاں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، مجھے یقین ہے کہ جس المیے کی وہ بات کررہے ہیں وہ جنم لے چکا ہے، اگر عمیق نظری سے حالات اور واقعات کا جائزہ لیں تو اس المیے کی ابتدا بالفور ڈیکلریشن سے ہوئی، جب جنگ عظیم اول کے بعد برطانوی حکومت نے یہودیوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے ایک ریاست کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ پھر دوسری جنگ عظیم میں یہودی زعما و امرا نے جس طرح برطانوی حکومت کی مدد کی اور بالآخر 1948ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہودی مذہب کی ابتدا ہو یا اس کا استیلاء، وہ فلسطین میں نہیں ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس خطے کے نہیں تھے، انہیں نبوت بھی یہاں نہیں ملی تھی، اس خطے کے اصلی باشندے فلسطینی ہی تھے، اس بات کا ذکر بائبل مقدس میں بھی آیا ہے، یہودیوں پر اللہ تبارک تعالیٰ نے کئی بار عذاب مسلط کیا۔ کبھی رومنوں نے کبھی یونانیوں نے بنی اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ان کا قبلہ یعنی ہیکل سلیمانی تباہ و برباد کیا گیا۔ 2500 سال تک یہ منتشر رہے اور ان کا قبلہ زمین بوس رہا ہے۔1876ء میں ایک یہودی تھیوڈوہرزل نے بکھرے ہوئے یہودیوں کو اکٹھا کرنے اور ریاست اسرائیل کے قیام کی تحریک شروع ہوئی جسے صہیونی تحریک کہتے ہیں، جس کے مطابق یہودی ایک ایسی عظیم یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جس کی سرحدیں اس ریاست کی طرح ہوں جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے قائم کی تھی، وہ عظیم اسرائیل تھا، جب رب العزت نے حضرت سلمان علیہ السلام کو بحروبر اور چرند و پرند پر حکمرانی عطا کی تھی عظیم الشان ہیکل یہودیوں کی دینی برتری اور اللہ کی پسندیدگی کی علامت تھا۔ صہیونی تحریک اس دور عظمت کو واپس لانا چاہتی ہے۔ 1948ء میں ریاست اسرائیل کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو خواب تھیوڈورہرزل نے دیکھا، اس کے ماننے والوں نے اس کی حقیقت کی طرف پہلا قدم اٹھایا اور پھر واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔ صہیونی ہر وقت گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے 2500 سال سے منتشر قوم کو نہ صرف صہیونیت کے پرچم تلے اکٹھا کیا، انہیں عظمت رفتہ کا خواب دکھایا بلکہ اسے حقیقت کی شکل بھی دے دی۔ ریاست اسرائیل انہی خوابوں کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہے۔ 1948ء سے ہنوز یہودی پل پل عظیم اسرائیل کے قیام کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے گریٹر اسرائیل کی جغرافیائی تکمیل کرنے کے لئے عربوں اور فلسطینیوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ وہ بڑے منظم انداز میں اپنی سرحدیں طے کردہ نقشے کے مطابق پھیلاتے چلے جا رہے ہیں، 80 فیصد سے زائد نقشہ مکمل ہوچکا ہے۔ مدینہ منورہ اور خیبر کا کچھ علاقہ ابھی باقی ہے، انہوں نے یروشلم کو بھی ریاست اسرائیل میں ضم کرلیا ہے بلکہ اسے اپنا دارالحکومت بھی قرار دے لیا ہے۔ عالمی برادری نے اس شہر کو تینوں مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی مشترکہ میراث قرار دیا تھا لیکن صہیونی یروشلم کو گریٹر اسرائیل کا دارالحکومت سمجھتے تھے اور اسے ریاست اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر معاملہ حل کردیا ہے۔ اب یہاں وہ تیسرے ہیکل سلمانی کی تعمیر کے لئے یکسو ہیں کیونکہ یہودی اپنے نجات دہندہ کی آمد کے منتظر ہیں جو ان کی عالمی حکومت کی قیادت کرے گا۔ اس کے لئے معبد کی تعمیر ضروری ہے، یہودی بائبل مقدس میں بیان کردہ پیش گوئیوں کے مطابق انہیں روبہ عمل کرتے چلے جا رہے ہیں، ان کے مطابق بہت سی نشانیاں دیکھی جا سکتی ہیں، کئی ایک پیش گوئیاں پوری بھی ہوچکی ہیں، جیسا کہ 2500 سال بعد یہودیوں کا اسرائیل میں یکجا ہو کر ایک مضبوط قوم بننا اللہ کی انہی نشانیوں میں سے ہے جس کے مطابق انہیں عظمت رفتہ کی بحالی کا وقت آن پہنچا ہے۔ ویسے حق سچ کی بات بھی یہی ہے کہ 1 کروڑ 44 لاکھ یہودی یعنی بنی اسرائیل کے ماننے والوں نے نہ صرف ایک ارب اور 44 کروڑ بنی اسماعیل کے ماننے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔ مٹھی بھر یہودی عربوں پر عذاب الٰہی کی طرح مسلط ہیں، اسرائیل میں 91 لاکھ یہودی بستے ہیں جنہوں نے 23 کروڑ سے زائد عربوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔ یہودی اقوام عالم کے مرکز پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔ سپر طاقت امریکا کے کلیدی فیصلہ ساز اداروں پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کی جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے کے اندر نہ صرف امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیل پہنچ گئے اور اسرائیلی قیادت کو امریکی حمایت کا یقین دلایا۔ ایسا ہی کچھ برطانیہ و دیگر عیسائی ممالک نے کیا۔ پوری دنیا کے عوام فلسطینیوں کے حق میں، ان کے حق خودارادیت کے لئے اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ کئی ممالک میں تو یہودی بھی صہیونی ریاست کے فلسطینیوں کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج دیکھے گئے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے شاندار احتجاجی مظاہرے امریکی فرانسیسی اور یورپی ممالک کے عوام کی طرف سے کئے گئے ہیں۔ انجلینا جولی جیسی مشہور شخصیت نے بھی عیسائی دنیا، حکمرانوں کے انسانی حقوق بارے دہرے معیار پر تنقید کی ہے، لیکن اہل حرم پر تو جیسے سقوطِ مرگ طاری ہے۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ بنی اسرائیل اللہ کی پسندیدہ قوم تھے، ان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی رہتی تھیں، لیکن جب بھی نافرمان بنے ان پر عذاب مسلط کیا گیا۔ اللہ نے ان کی مسیحائی کے لئے، انہیں شرک سے نجات دلانے کے لئے اپنا بندہ مسیح ابن مریمؑ بھجوایا۔ وہ کسی مسیحا کے منتظر بھی تھے لیکن انہوں نے عیسیٰ ابن مریمؑ کی تکذیب کی اور انہیں اپنے تئیں صلیب پر چڑھوا دیا۔ یہ آخری موقع تھا جو انہوں نے گنوا دیا۔ اس کے بعد اللہ رب العزت نے ان پر ازلی ذلت طاری کردی، ان کا معبد زمین بوس کردیا اور انہیں منتشر کردیا۔ یہ بات عیسائی بھی جانتے ہیں کہ یہودی حضرت عیسی علیہ السلام کے قاتل ہیں۔ صدیوں تک یہودی عیسائیوں کے ہاتھوں تعزیب کا نشانہ بنتے رہے۔ لیکن اب یہ ان کی کامیابی ہے کہ پوری عیسائی دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے صہیونی تحریک کے زیراثر پہلے برطانیہ عظمیٰ کو اور پھر عظیم طاقت امریکا کو اپنے ساتھ ملایا۔ ریاست اسرائیل قائم کی اور پوری دنیا پر اپنا اثرورسوخ قائم کیا۔ یہودی عظیم اسرائیل کا ایک انچ بھی فلسطینیوں کے ساتھ شیئر کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، اس مقصد کے لئے چاہے انہیں ایک ایک فلسطینی کو موت کے گھاٹ اتار نا پڑے۔ صہیونی حکمران اپنی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سے وہ حقیقی و یقینی کامیابی دیکھ رہے ہیں، گریٹر اسرائیل قائم ہونے جا رہا ہے، ان کا قبلہ تعمیر ہونے کو ہے، بس ایک قدم اور آگے بڑھانے کی بات ہے، لیکن ان کی حتمی کامیابی گریٹر اسرائیل کے قیام تیسرے معبد سلمانی کی تعمیر اور مسیحا کی آمد کی راہ میں حماس حائل ہے۔ وہ اسے ملیامیٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، کسی بھی قیمت پر وہ گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس بات سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ 1 ارب 44 کروڑ مسلمان بھی نہیں، لیکن اللہ رب العزت بھی تو ہے۔

مطلقہ خبریں