Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

اکتوبر 2023ء۔۔ حماس اور اسرائیل جنگ

زمانہ قدیم سے غزہ کا علاقہ اسٹرٹیجک اور ملٹری اہمیت کا حامل رہا ہے، اس لئے اس پر قبضہ کے لئے جنگیں ہوتی رہی ہیں۔۔
نصرت مرزا
زمانہ قدیم سے غزہ کا علاقہ اسٹرٹیجک اور ملٹری اہمیت کا حامل رہا ہے، اس لئے اس پر قبضہ کے لئے جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ اسلام کے ظہور سے پہلے اس علاقہ میں عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان کشمکش رہی، خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں یہودیوں نے یہ علاقہ مسلمانوں کے حوالہ کردیا، یہ وقت 637-38 عیسوی کا تھا۔ سات سو سال بعد عیسائیوں نے اس پر کچھ عرصے کے لئے قبضہ کرلیا مگر اس طویل جنگ کے بعد صلاح الدین ایوبی نے 2 اکتوبر 1187ء میں بیت المقدس اور غزہ کا علاقہ واپس لے لیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے وزیرخارجہ بالفورڈ نے 1917ء میں اسرائیلیوں کو فلسطین میں بسانے کا اعلامیہ جاری کیا اور 1949ء میں اسرئیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا، اس کے بعد اسرائیل آہستہ آہستہ بیت المقدس بھی قابض ہوگیا اور فلسطینی مزاحمت کرتے رہے اور اسرائیل ان کو مارتا رہا، ظلم و بربریت کا نشانہ بناتا رہا، ظلم وستم کی نئی تاریخ رقم ہوئی، مسلمان ثابت قدم رہے اور مزاحمت نہیں چھوڑی، جو اللہ کے احکامات کے عین مطابق تھی۔ یہ ادا اللہ کو ضرور پسند آئی ہوگی۔
تقریباً 17 سال پہلے ہونے والی کی چھٹی عرب اسرائیل جنگ (2006) کے بعد اور اسرائیل کے جابرانہ اور ظالمانہ حکمرانی کی وجہ سے یہ علاقہ جو خاموشی کا شکار تھا، اب 7 اکتوبر 2023ء کے حماس کے حملے نے اسرائیل فلسطین تنازع کو پھر سے اُجاگر کردیا ہے۔ دو دہائیوں سے زیادہ تک اسرائیل کے ظلم وستم نے عالمی سربراہان اور عالمی اداروں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب یہ خطہ مقابلہ سازی کے دور سے نکل گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ کے 2 ملین فلسطینیوں کو بحری، فضائی اور بری راستوں سے محصور کر رکھا تھا اور 7 اکتوبر 2023ء کا حملہ تمام دُنیا کو ششدر کردیا اور اب سب کو اپنے تصوراتی دُنیا سے نکلنا پڑا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر مکمل قابو پا لیا ہے، اب اُن میں خامیاں واضح ہوگئی ہیں، اس حملہ نے فلسطین کے مسئلہ کو پھر سے زندہ کر دکھایا ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل کو کئی وجوہات کی وجہ سے امن درکار ہے تو پھر اس کو فلسطینیوں سے گفتگوکاری کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا، ورنہ وہ تباہ ہوجائے گا۔ امریکا زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دے سکے گا اور نہ ہی یورپ اسرائیل کا ہمنوا رہ سکے گا، کیونکہ اس حملہ نے عرب حکمرانوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور عرب عوام کو جگا دہا ہے اور وہ بالآخر ایک ہو کر اسرائیل سے لڑ رہے ہوں گے۔
اس دفعہ جنگ دوسری قسم کی ہوگی جو عرب حکمرانوں پر بھاری پڑے گی، وہ امریکا کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ نہیں چھوڑیں گے تو تباہ ہوجائیں گے۔ اگر دُنیا کے اس حملے کو اچانک حملہ قرار دیتے ہیں مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ فلسطینی بہرحال مسلمان ہیں اور وہ یہاں کے باسی تھے۔ اُن کو بے دخل کیا گیا ہے اور کیوں ایسا نہیں کرسکتے جیسا کہ انہوں نے کیا۔
دُنیا کے لوگ اب اس خطے کی چار ہزار سالہ تاریخ کو یاد کرنے لگے ہیں کہ صدیوں سے یہ خطہ جنگ و جدل کا میدان بنا رہا ہے اور اس نے سمندر تک رسائی کے لئے اسرائییلی قبائل اور فلسطینیوں کے درمیان اس چار ہزار سالہ تاریخ میں جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ اسرائیل کے قبائلی یا اُن کی بادشاہتیں ہوں وہ سب کی سب اہمیت اور طاقتور ہونے کی خواہش کی بنا پر لڑائیاں کرتی رہی ہیں۔ عیسائیوں نے یہودیوں کو اسی خطہ میں وہ مار ماری جس کو آج بھی یہودی بھلائے نہیں بھولتے اور وہ عیسائیوں کو خوامخواہ مسلمانوں سے لڑانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
ایک زمانہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہودیوں کو عیسائیوں کے ظلم سے بچا لیا تھا مگر یہ احسان فراموش قوم مسلمانوں سے بنا کر نہ رکھ سکی اور عیسائیوں کو استعمال کرکے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
75 سالوں سے انہوں نے عیسائیوں کو اپنی دولت کی وجہ سے اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے اور عیسائی بھی یہودیوں سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں کو الجھائے رکھنے کے لئے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ورنہ وہ یہودیوں سے مسلمانوں سے زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ اگر 1050ء سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہودی یورپ کے ہر ملک سے نکالے گئے۔ ان کو سخت سزائیں دیں اُن کو زندہ جلایا گیا اور اب عیسائی مسلمانوں کا ساتھ دے کر یہودیوں سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں، مگر اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم و ستم کرنے سے روکا جائے اور عیسائی اور یہودیوں کے اتحاد کے خاتمہ کا وقت بھی آگیا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں اور برطانیہ میں یہ علاقہ فلسطینیوں کا تھا۔
اس کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو سترویں صدی قبل مسیح سے غزہ کا علاقہ اہمیت کا حامل رہا ہے اور جنگ و جدل کا بھی۔ جب ہائیکسوس لوگوں نے دریائے نیل کے ساحلی علاقوں پر غزہ کے راستہ حملہ کیا تو فرائن کے قبیلے تھبیان قبیلہ کو شکست ہوئی، آخرکار بیسوی صدی بی سی میں فراعین نے غزہ کا سمندری علاقہ ہائیکسوس اور سمندری لوگوں کے حوالے کیا، یہ لوگ جو ایشین، افریقی، عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے، جو عربی، ہبریو اور فوزیشین زبانیں بولتے تھے، یہ لوگ غزہ پر قابض ہوگئے۔ یہ لوگ سمندری راستوں کو استعمال کرتے تھے اور ان لوگوں نے پانچ شہر جن میں غزہ اور آج کے اسرائیلی شہر اشکیلون، اشدود، ایکرون اور گاتھ آباد کئے، پھر ان شہروں پر مشتمل فیڈرل ریاست قائم کی، اس کے بعد بھی یہ خطہ ہمیشہ میدانِ جنگ بنا رہا اور آسارین اور بیبیلون کے بعد پرشیا کے بادشاہ عظیم سائرس نے 60 ویں صدی بی سی میں غزہ کو فتح کیا، لیکن دو سو سال بعد سکندر اعظم نے 100 دنوں تک غزہ کا محاصرہ کیا، غزہ کے لوگ بڑی بہادری سے لڑے، یہاں تک کہ سکندراعظم کو زخمی بھی کیا، لیکن پھر بھی سکندراعظم نے غزہ فتح کرلیا اور تمام مردوں کو مار دیا جبکہ بچوں اور عورتوں کو غلام بنا لیا، اس بات کو ایک بار پھر دہرانا یا یاد دلانا ضروری ہے کہ مسلمانوں کے دور میں بیت المقدس کی کنجی خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے کر گئی تھی، کنجی حوالے کرتے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود یہودی تھے، یہ علاقہ سات سو سال تک مسلمانوں کے پاس اور کچھ عرصے عیسائیوں کے پاس۔ پھر صلاح الدین ایوبی نے اسے فتح کیا تو یہ پھر مسلمانوں کے پاس آگیا اور 1949ء سے پہلے تک مسلمانوں کے پاس ہی رہا۔ ایک اور بات سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ 1931ء میں عالمی عدالت میں حق ملکیت کا کیس پیش کیا تو عالمی عدالت نے جید یہودیوں اور مسلمانوں کے دلائل سننے کے بعد دیوار گریہ، بیت المقدس اور مغربی کوارٹرز پر مسلمانوں کا حق تسلیم کیا۔
غزہ جیسے سبزیوں اور باغات سے بھرپور سبز و شاداب علاقہ تھا جو آج پانی کی کمیابی، ختم نہ ہونے والے انسانی المیہ سے دوچار ہے، غزہ کا خطہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اس کی اہمیت تو اس سے واضع ہوجاتی ہے کہ وہ فلسطین کو مصر سے ملاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی طاقتیں پھر سے فلسطینیوں کی اہمیت کا اندازہ کریں اور ان کے حق کو اس علاقہ کی ملکیت کے حق کو تسلیم کریں اور اگر عالمی طاقتیں امن چاہتی ہیں اور اس خطہ کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس خطہ کو دوبارہ سے آباد کریں، اسرائیل کو فلسطینیوں کو مارنے کا لائسنس دینے کی بجائے ان کے وجود اور ان کے تاریخی حق و کردار کو تسلیم کریں، ورنہ امریکا اور یورپ کو شدید مشکلات برداشت کرنا ہوں گی، فلسطینیوں کو ان کا حق دینے کا یہ فائدہ ہوگا کہ ان ممالک کا مسلمان ممالک سے تعلقات بہتر ہوجائیں گے جن میں اردن، شام، عراق، لبنان اور دیگر ملحق علاقہ جات شامل ہیں، بصورت دیگر یہ تعلقات بلآخر بگڑ جائیں گے۔ اس جنگ کا چاہے جو نتیجہ نکلے اسرئیلی اپنے کو اسرائیل میں اب کبھی محفوظ نہیں سجھ سکیں گے۔

مطلقہ خبریں